بحيرہء چين کے جزائر پر چينی جاپانی تنازعہ
14 ستمبر 2012چين کے قوم پرست اس پر بہت برہم ہيں اور جنگ کے نعرے لگا رہے ہيں۔
بيجنگ ميں جاپانی سفارت خانے اور جاپانی سفير کی رہائش گاہ کے سامنے روزانہ ہی مظاہرے کيے جا رہے ہيں، جن ميں جاپان کے خلاف نعرے لگائے جاتے ہيں۔ مظاہرين کا کہنا ہے کہ مشرقی بحيرہء چين کے يہ جزيرے چين کی ملکيت ہيں۔ چينی دارالحکومت ميں کسی قسم کے مظاہرے برداشت نہيں کيے جاتے ہيں ليکن حکام ان مظاہروں کی اجازت دے رہے ہيں، حتٰی کہ صحافيوں کو بھی مظاہرين تک رسائی دی جا رہی ہے۔ مظاہرين ميں سے ايک نے کہا: ’’چھوٹے سے جاپان کو ديايو جزيروں کو بالکل نہيں چھيڑنا چاہيے۔ ہميں فوراً جنگ شروع کر دينا چاہيے۔‘‘
چينی حکومت اس حد تک تو نہيں جائے گی ليکن اس نے بحريہ کی کشتيوں کو ان غير آباد جزائر کی طرف روانہ کر ديا ہے۔ ميڈيا کی خبروں کے مطابق يہ کشتياں جمعے کو جاپان کی سمندری حدود ميں داخل ہوئيں۔ چين کے مطابق جاپانی رياست کا ان جزيروں کو خريدنا غير قانونی ہے۔ چينی وزارت خاجہ کے ترجمان ہونگ لائی نے کہا: ’’ہميں اميد ہے کہ جاپان اس غلط فيصلے کو واپس لے لے گا اور چين کی حاکميت اعلٰی کی خلاف ورزی کرنے والی سرگرميوں کو روک دے گا‘‘
اس کے ساتھ ہی چينی ترجمان نے مزيد اقدامات کی دھمکی بھی دی ليکن اس بارے ميں کو ئی تفصيلات نہيں بتائيں۔ ديايو يا سنکاکو کہلانے والے يہ پانچ غير آباد جزيرے جو برسوں سے جاپان کے زير انتظام ہيں ليکن جن پر چين اور تائيوان کا بھی دعوٰی ہے، ايسے سمندری علاقے ميں واقع ہيں جہاں مچھليوں کی کثرت ہے۔ يہاں سمندر کی تہہ ميں تيل اور قدرتی گيس کے بہت بڑے ذخائر پوشيدہ ہونے کا بھی اندازہ ہے۔
چين ميں دوسری عالمی جنگ کے دوران کئی چينی علاقوں پر جاپانی قبضے کو ابھی تک فراموش نہيں کيا گيا ہے۔ اسی ليے پرانی تذليل کا بدلہ لينے کے ليے انٹرنيٹ پر جنگ اور جاپانی مصنوعات کے بائيکاٹ کے مطالبے کيے جا رہے ہيں۔ جاپانی اشيا کا بائيکاٹ خاص طور پر جاپان کے ليے خسارے کا باعث ہوگا۔ چين اُس کا اہم ترين تجارتی ساتھی ہے۔ ليکن چين کو بھی اس بائيکاٹ سے خاصا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پچھلے سال دونوں ممالک کے درميان تقريباً 340 ارب ڈالر ماليت کی اشيا کا تبادلہ ہوا تھا۔
R.Kirchner,sas/M.Dittrich,sks
.
S