بحيرہ روم ميں مہاجرين کے ريسکيو کے ليے اسمارٹ فون ايپليکيشن
15 جون 2016خبر رساں ادارے تھامسن روئٹرز فاؤنڈيشن کی برطانوی دارالحکومت لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق يہ زير آزمائش ايپليکيشن اپنے صارفين کو اس بارے ميں معلومات فراہم کرتی ہے کہ بحيرہ روم ميں کون کون سے مقامات پر مہاجرین کی کشتيوں کو مدد ضرورت ہے کہ وہ مشکل حالات کا سامنا کر رہی ہیں۔ آزمائش کرنے والی يہ تنظيم اميد کرتی ہے کہ عام افراد کی جانب سے مہيا کردہ معلومات زيادہ تعداد ميں انسانی جانيں بچانے ميں مدد گار ثابت ہو گی۔
’I SEA‘ نامی ايپليکيشن نامور کمپنی ايپل کے آئی ٹيونز اسٹور ميں دستياب ہے۔ ايپليکيشن کچھ اس طرح کام کرتی ہے کہ وسطی بحيرہ روم کی ايک سيٹلائٹ کی مدد سے لی گئی تصوير کئی ملين چھوٹے چھوٹے حصوں ميں تقسيم کر دی جاتی ہے۔ سيٹلائٹ تصوير ميں مہاجرين کے زير استعمال آنے والے تمام راستوں موجود ہوتے ہيں۔ تقسيم کے بعد ان تمام حصوں کی نگرانی رجسٹرڈ صارفين کو سونپ دی جاتی ہے۔ بعد ازاں ہر انفرادی صارف اپنے حصے کی نگرانی کرتا ہے اور کسی ايسی صورتحال ميں کہ جب اسے کوئی کشتی يا بحری جہاز مشکل ميں نظر آتا ہے تو اِس بارے میں معلومات مالٹا ميں قائم مہاجرین کی مدد کے مرکز ’مائگرنٹ آف شور ايڈ اسٹيشن(MOAS) کو فراہم کی جا سکتی ہے۔
اطلاع ملنے پر حکام اور ادارے کے اہلکار سيٹلائٹ تصوير کا تفصيلی جائزہ ليتے ہيں جس کے بعد يہ فيصلہ کيا جاتا ہے کہ ريسکيو مشن لانچ کيا جائے يا نہيں۔ (MOAS) کے سربراہ اين روگيئر نے خبر رساں ادارے کو بتايا، ’’اس کے پيچھے بنيادی خيال يہ ہے کہ زيادہ لوگوں کے ريسکيو يا نگرانی کے عمل ميں شامل ہونے سے سمندر کے زيادہ علاقے کی نگرانی ممکن ہو۔‘‘ ان کے بقول يہ ايپليکيشن لوگوں کو يہ ديکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے کہ وہ لوگوں کی جانيں بچانے ميں مدد کر رہے ہيں۔ مالٹا سے ٹيلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتايا کہ ايپليکيشن کی کاميابی کا دارومدار اس کی مقبوليت پر ہے۔
سال رواں کے دوران اب تک چاليس ہزار مہاجرين ليبيا سے بحيرہ روم کا سفر طے کرتے ہوئے يورپی ملک اٹلی پہنچ چکے ہيں۔ اس دوران دو ہزار سے زائد افراد سمندر ميں ڈوب کر ہلاک بھی ہوئے ہيں۔
(MOAS) کی بنياد سن 2014 ميں رکھی گئی تھی اور يہ مہاجرين کو بچانے کے ليے کام کرنے والا پہلا نجی ادارہ ہے۔ بحيرہ روم کی نگرانی کے ليے يہ ادارہ بغير پائلٹ والے ڈرون طياروں کا سہارا ليتا ہے۔ (MOAS) کی ويب سائٹ کے مطابق يہ ادارہ اپنے قيام سے لے کر اب تک بارہ ہزار افراد کو بچا چکا ہے۔