باسکٹ بال میں ہیڈ ویئر کی اجازت ایک تاریخی عالمی فیصلہ
5 مئی 2017نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی جمعہ پانچ مئی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس کھیل کی نگران عالمی تنظیم نے جمعرات چار مئی کی رات اپنے ایک اجلاس میں متفقہ رائے سے اس کھیل کا احاطہ کرنے والے ضوابط میں ایک ایسی اہم ترمیم کی منظوری دے دی، جسے ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
فیڈریشن آف انٹرنیشنل باسکٹ بال ایسوسی ایشنز کے ہانگ کانگ میں ہونے والے ایک وسط مدتی اجلاس میں، جس میں بہت سی دیگر شخصیات کے علاوہ 139 ملکوں کی قومی باسکٹ بال تنظیموں کے نمائندے بھی شامل تھے، یہ فیصلہ کیا گیا کہ اب کوئی بھی مرد یا خاتون کھلاڑی اپنے سر پر کوئی کپڑا، رومال یا حجاب پہن کر، جسے اس کھیل کی زبان میں ’ہیڈ گیئر‘ یا ’ہیڈ ویئر‘ کہا جاتا ہے، باسکٹ بال کے کورٹ میں اتر سکے گا یا اتر سکے گی۔
اس تاریخی فیصلے سے پہلے تک کی صورت حال یہ تھی کہ اس کھیل کے کسی بھی مقابلے میں فتح باسکٹ بال کی ہوتی تھی۔ لیکن اب یہ کہا جا رہا ہے کہ اس کھیل کے کسی بھی مقابلے کا مطلب یہ ہو گا کہ اس فتح میں باسکٹ بال کا بھی اتنا ہی حصہ ہو گا جتنا کہ باسکٹ بالرز کا۔ اس موقف کی وضاحت اس کھیل کی نگران عالمی تنظیم فیبا (FIBA) نے یوں کی کہ کل جمعرات تک کھلاڑیوں کی طرف سے ’ہیڈ گیئر‘ کے استعمال پر پابندی کے نتیجے میں چند خاص مذہبی برادریوں سے تعلق رکھنے والے کھلاڑیوں اور تقریباﹰ ساری ہی حجاب استعمال کرنے والی مسلم ایتھلیٹس یہ کھیل نہیں کھیل سکتی تھیں۔ لیکن اب عالمی سطح پر باسکٹ بال کا کورٹ ہر کسی کے لیے کھول دیا گیا ہے۔
اس بارے میں ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ ماضی میں ہیڈ گیئر کے استعمال پر پابندی کا مطلب یہ تھا کہ اس تنظیم کو کھیل یا کھلاڑی دونوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا اور فیبا نے کھیل کا انتخاب کیا تھا۔ لیکن اب فیبا نے کھیل اور کھلاڑی دونوں کی یکساں حمایت کر دی ہے۔
اسی حوالے سے ہانگ کانگ میں فیبا کے عالمی اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ ہیڈ گیئر پر عمومی پابندی کسی بھی مذہب یا صنف کے خلاف نہیں تھی لیکن یہ محسوس کیا گیا تھا بہت سے مرد اور خواتین کھلاڑی اس کھیل سے باہر رہنے پر مجبور تھے۔ مثلاﹰ باحجاب مسلم خواتین اور سکھ مذہب کے پیروکاروں کے لیے، جو مذہبی بنیادوں پر اپنا سرڈھانپتے ہیں، یہ کھیل کھیلنا ممکن نہیں تھا۔
فیبا کے گورننگ بورڈ کے طویل عرصے سے رکن چلے آ رہے وال آکرمن نے، جو اس تنظیم کے ایک سرکردہ کمشنر بھی ہیں، کہا کہ اس کھیل کے عالمی ضوابط میں اس ترمیم سے خاص طور پر مسلم خاتون ایتھلیٹس کو فائدہ پہنچے گا۔ ’’یہ ایک انتہائی مثبت اور بین الاقوامی سطح پر اچھے نتائج کی حامل بہت مؤثر تبدیلی ثابت ہو گی۔‘‘