ایک پاکستانی لڑکی بہ طور سُپر ہیرو
9 جنوری 2014سولہ سالہ کمالہ خان کوئی عام مسلمان لڑکی نہیں ہے۔ وہ امریکی مارویل کامک کی نئی سپر ہیرو ہے اور کئی حیرت انگیز صلاحیتوں کی مالک ہے۔ اُس کا تعلق پاکستان سے ترک وطن کر کے امریکا میں آباد ہونے والے ایک پاکستانی خاندان سے ہے اور بلوغت میں قدم رکھتی یہ لڑکی اپنی شناخت کے ایک ہمہ جہت بحران کا شکار ہے۔
کمالہ کا کردار مارویل پبلشرز کے ایڈیٹروں ثنا امانت اور اسٹیو واکر کی تخلیق ہے۔ کارٹون سیریز کا یہ کردار اُس وقت دریافت ہوا، جب ثنا امانت نے امریکا میں ایک مسلمان پاکستانی لڑکی کے طور پر اپنے بچپن کے دلچسپ تجربات بتائے۔ کامک سیریز کے مصنف جی وِلو ولسن کو، جو اسلام قبول کر چکے ہیں، یہ کردار بہت پسند آیا اور اُنہوں نے اس منصوبے کی فوری طور پر منظوری دے دی۔
ولسن کے بقول، ’مَیں چاہتا تھا کہ مِس مارویل ایک حقیقی کردار ہو، جس کے ساتھ خاص طور پر نوجوان لڑکیوں کو اپنا پن محسوس ہو سکے۔ ویسے مَیں نے اس میں اپنے بچپن کے بہت سے تجربات کو بھی سمو دیا ہے‘۔
سولہ سالہ کمالہ خان کو وہ سارے مسائل بھی درپیش ہیں، جن کا اُس کی عمر کی ایک کثیرالثقافتی پس منظر کی حامل لڑکی کو امریکی معاشرے میں ہر حال میں سامنا کرنا ہی پڑتا ہے۔ ساتھ ساتھ وہ اپنے گھر میں اور باہر بھی روایت اور جدیدیت کے درمیان کشمکش کا بھی شکار ہے۔
گھر میں اُس کا ایک بھائی ہے، جو بہت ہی زیادہ قدامت پسند ہے اور ایک ماں ہے، جو اُس سے پیار بھی کرتی ہے لیکن یہ کہہ کہہ کر اُسے بہت زیادہ پریشان بھی کر دیتی ہے کہ وہ کسی لڑکے کے قریب نہ جائے، ورنہ حاملہ ہو جائے گی۔ باہر اُس کے دوست اُس کے مسائل کو سمجھنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
ساتھ ہی اس لڑکی کو اُن مشکلات کا بھی سامنا ہے، جن سے خاص طور پر گیارہ ستمبر 2001ء کے دہشت پسندانہ و اقعات کے بعد سے امریکا میں مقیم مسلمان شہری دوچار ہیں۔
اب تک اس سیریز کا صرف سرورق اور چند ایک تفصیلات ہی منظر عام پر آئی ہیں۔ سرورق پر ایک نوجوان اور پھرتیلی لڑکی کو دیکھا جا سکتا ہے، جس کی سیاہ ٹی شرٹ پر کوندتی ہوئی بجلی کی سی شکل میں انگریزی حرف ایس کا نشان بنا ہوا ہے۔ اپنی بائیں بغل کے نیچے کتابیں تھامے یہ لڑکی اپنے دوسرے ہاتھ کو مکّے کی شکل میں لہراتی نظر آتی ہے۔
اس کردار کے لیے کمالہ کا نام جان بوجھ کر اس لیے چُنا گیا ہے کہ یہ پاکستانی وادیء سوات کی اُس سولہ سالہ ملالہ سے ملتا جلتا ہے، جو طالبان کے ہاتھوں شدید زخمی ہونے کے بعد بھی لڑکیوں کی تعلیم کے بنیادی حق کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔