1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایک ماہ میں 450 عراقی بدامنی کی بھینٹ چڑھ گئے

28 مئی 2013

عراقی دارالحکومت بغداد گزشتہ روز ایک مرتبہ پھر خونریز بم دھماکوں سے لرز اٹھا جب متعدد کار بم حملوں نے 65 سے زائد لوگوں کی جان لے لی۔

https://p.dw.com/p/18fB5
تصویر: picture-alliance/AP Photo

عراق میں محض رواں ماہ اس نوعیت کے واقعات میں 450 لوگوں کی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔ بغداد میں گزشتہ روز کے دھماکوں میں 66 لوگوں کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی ہے جبکہ زخمی ہونے والے شہریوں کی تعداد دو سو بتائی جارہی ہے۔ خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق پیر کے روز بغداد کے بازاروں اور عام شہریوں کی آمد و رفت والے دیگر مقامات پر ہونے والے دھماکے اس ملک میں سلامتی کی ابتر ہوتی ہوئی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ عراق میں فرقہ ورانہ کشیدگی کو بغداد حکومت مخالف مظاہروں اور پڑوسی ملک شام کی صورتحال نے مزید گھمبیر کر ڈالا ہے۔

پیر کے روز پہلا حملہ حبیبیہ نامی علاقے میں ہوا، جو شیعہ آبادی والے ضلع صدر کے سنگم پر واقع ہے۔ یہاں دو بم حملوں میں 12 لوگوں کی موت ہوئی۔ ایک کار بم حملہ بغداد کے مرکزی علاقے کے بازار میں ہوا جہاں پانچ عام شہری اس کی زد میں آکر ہلاک ہو گئے جبکہ 14 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ مشرقی علاقے میں نیو بغداد کے قریب ایک بم کو ناکارہ بنانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ وہ پھٹ گیا، جس باعث ایک شہری مارا گیا۔ دیگر دھماکے کاظمیہ، حریت، بایا، صدریہ، جسر دیالا، بلدیات اور میدان کے علاقوں میں ہوئے۔

Irak Anschlag Bakuba
تصویر: picture-alliance/AP

اے پی کے مطابق کسی گروپ، تنظیم یا شخص نے پیر کے روز ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی جو اکثریتی شیعہ آبادی والے علاقوں میں ہوئے تاہم ان حملوں کی طرز پر القاعدہ کی عراقی شاخ کی چھاپ نمایاں تھی۔ یہ گروپ ’دولة العراق الاسلامية‘ کے نام سے مشہور ہے اور ماضی میں بھی اسی طرح کے کار بم حملے کر چکا ہے۔

عراقی شہریوں پر خانہ جنگی کا خوف طاری

یہاں بڑھتی ہوئی خونریزی نے ایک مرتبہ پھر سال 2006ء اور 2007ء جیسی صورتحال کا خوف لوگوں میں بٹھادیا ہے جب یہ ملک بد امنی کے باعث خانہ جنگی کے دہانے پر آکھڑا ہوا تھا۔ عراقیوں کے لیے رواں سال اپریل کا مہینہ گزشتہ چار برسوں کا خونریز ترین مہینہ رہا، جس دوران اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق 700 سے زائد شہری بدامنی کی بھینٹ چڑھے۔

Irak Premierminister Nuri al-Maliki
نوری المالکیتصویر: Reuters

گزشتہ پیر کو بھی اسی طرز کے حملوں نے شیعہ اور سُنی آبادی کے باسیوں کو خون میں نہلا دیا تھا، جب مجموعی طور پر 113 لوگ بدامنی کی نذر ہوگئے تھے۔ بغداد میں امریکی سفارتخانے نے ایک بیان جاری کیا، جس میں حالیہ حملوں کی مذمت کی گئی ہے۔

عراق میں گزشتہ برس دسمبر سے سُنی برادری کے ارکان مرکزی حکومت کے خلاف سراپا احتاج ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی پولیس ان کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہی ہے جبکہ دیگر معاملات میں بھی شیعہ وزیر اعظم نوری المالکی کی انتظامیہ سُنی شہریوں کا خیال نہیں رکھ رہی۔ گزشتہ ماہ سُنی مظاہرین کے ایک کیمپ پر سکیوٹی فورسز کے کریک ڈاؤن میں کئی مظاہرین مارے گئے تھے۔ مبصرین کے خیال میں اس واقعے نے سیاسی بحران کو بھی خونریز تنازعات کی شکل دے دی ہے۔

(sks/ ai (AP