ایف اے ٹی ایف کی ذیلی تنظیم اسلام آباد میں
8 اکتوبر 2018ایشیا پیسیفک گروپ برائے انسدادِ منی لانڈرنگ نو رکنی وفد پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے)سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، اسٹیٹ بینک، وزراتِ خزانہ کے علاوہ کچھ اور محکموں کے حکام سے ملاقاتیں کرے گا اور ان حکومتی اقدامات کا جائزہ لے گا، جو اسلام آباد نے ایف اے ٹی ایف کومطمئن کرنے کے لیے اٹھائے ہیں۔
وزارتِ خزانہ کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’حکومت نے ایف اے ٹی ایف کے قوانین کے مطابق کئی ایسے اقدامات کئے ہیں، جن کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پر ہم نے جولائی میں بارڈ پوسٹ سسٹم کو اپ گریڈ کیا ہے اور مختلف ایجنسیوں کے درمیان کورڈینشن کو بڑھایا ہے تاکہ وہ دہشت گرد، جو پاک افغان بارڈ پر موجود ہیں، وہ کرنسی کی اسمگلنگ نہ کر سکیں۔ یہ ایف اے ٹی ایف کے مطالبات میں سرِ فہرست تھا، جسے اسلام آباد نے پورا کر دیا ہے۔‘‘
اسیٹ بینک کے ترجمان عابد قمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت نے ایف اے ٹی ایف کو مطمئن کرنے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں،’’ہم نے حالیہ مہینوں میں قوانین میں ترامیم کی ہیں تاکہ مالیاتی ادارے کے تحفظات کو دور کیا جائے۔ تو ہم نے اپنے طور پر پوری کوشش کر رہے ہیں اور ہم ان اقدامات سے ٹیم کو ملاقاتوں اور اجلاسوں کے دوران آگاہ بھی کریں گے۔‘‘
یہ وفد ایک ایسے وقت میں پاکستان آیا ہے جب وزیراعظم عمران خان کی حکومت نے یہ عندیہ دیا ہے کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جائے گی۔ حکومتی وزراء نے بھی اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وہ عالمی مالیاتی ادارے سے قرضہ لینے کے لیے اس کی شرائط پوری کرنے کے لیے تیار ہے۔
واضح رہے حکومت نے حال ہی میں پیٹرول، گیس،بجلی اور سیمنٹ سمیت کئی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے۔ کئی ماہرین کے خیال میں یہ تما م اقدامات عالمی مالیاتی ادارے کو خوش کرنے کے لیے کئے جارہے ہیں۔ لیکن معاشی و مالیاتی تجزیہ نگاروں کا خیال یہ ہے کہ ان اقدامات کے علاوہ پاکستان کو دہشت گردی میں مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے خلاف بھی اقدامات کرنے پڑیں گے کیونکہ اگر ایف اے ٹی ایف پاکستانی اقدامات سے مطمئن نہ ہوئی تو پھر ملک کے لیے مالی ومعاشی مشکلات بد ستور موجود رہیں گی۔
پاکستان مالی اعتبار سے اس وقت شدید مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔ ماہرین کے خیال میں ملک کواندورنی معیشت چلانے کے لیے نو ارب ڈالرز جب کہ سالانہ قرضے واپس کرنے اور دیگر دوسرے امور کے لیے بارہ بلین ڈالرز چاہییں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے مالیاتی امور کے ماہر فیصل بلوچ کا خیال ہے کہ پاکستان ایف اے ٹی ایف کو مطمئن نہ کرنے کا رسک نہیں لے سکتا، ’’اگر ہم انہیں مطمئن نہیں کر سکے تو ہمیں بلیک لسٹ بھی کیا جا سکتا ہے، جس سے ملک کی ایکسپورٹ متاثر ہو گی، جو پہلے ہی ایک طرح سے خسارے میں ہے۔ ہم کو قرضوں کے حصول میں شدید دشواری ہوگی، جس کی ہمیں شدت سے ضرورت ہے۔ اگر ہم انہیں مطمئن نہ کر سکے تو چین کے علاوہ ہمیں کوئی بھی قرضہ نہیں دے سکے گا۔‘‘
تاہم کچھ تجزیہ نگاروں کے خیال میں پاکستان کو بلیک لسٹ نہیں کیا جا سکتا۔ معروف مالیاتی امور کے ماہر اور سابق وفاقی سیکریڑی برائے خزانہ وقار مسعود نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’بلیک لسٹ میں ان ممالک کو ڈالا جاتا ہے، جو تعاون نہیں کرتے۔ ہم تو انہیں ہر چیز بتا رہے ہیں، جو وہ پوچھتے ہیں اور تمام وہ اقدامات کر رہے ہیں، جن سے وہ مطمئن ہوں۔ ہمارے پاس چھپانے کو کچھ نہیں ہے۔ تو میرا نہیں خیال کہ پاکستان کو بلیک لسٹ میں ڈالا جائے گا۔‘‘