ایرانی اسلحے کی غیر قانونی تجارت، اقوام متحدہ کی رپورٹ جاری
30 جون 2012اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے ایران کے خلاف چار مرحلوں میں پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں۔ یہ پابندیاں ایران کی طرف سے اپنے متنازعہ جوہری پروگرام کو روکنے سے انکار کے بعد عائد کی گئیں۔ امریکا اور مغربی ممالک کے خیال میں ایران کے جوہری پروگرام کا مقصد ہتھیاروں کی تیاری ہے، جبکہ ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ اس کے پرامن جوہری پروگرام کا مقصد توانائی کا حصول ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق شام بدستور ایرانی ہتھیاروں کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ روس کی طرح ایران بھی شامی حکومت کے ان چند حامیوں میں شامل ہے جو وہاں کے صدر بشار الاسد کے خلاف گزشتہ 16 ماہ سے چلائی جانے والی تحریک کے باوجود شام کے ساتھ کھڑے ہیں۔
مغربی ممالک کے سفارت کاروں کے مطابق انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ یہ رپورٹ عوامی سطح پر جاری کر دی گئی ہے۔ ابتدائی طور پر خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ روس اس رپورٹ کے اجراء کو رکوا سکتا ہے، جیسا کہ اس نے گزشتہ برس ایران کے حوالے سے رپورٹ پر اعتراضات لگا کر اسے جاری کرنے سے رُکوا دیا تھا۔ ان سفارتکاروں کے مطابق اس رپورٹ کے اجراء سے یقیناﹰ ایران پر دباؤ میں اضافہ ہوگا کہ وہ حساس جوہری سرگرمیوں سے باز رہے۔
اقوام متحدہ کی طرف سے لگائی جانے والی پابندیوں پر نظر رکھنے والے پینل کی طرف سے یہ رپورٹ ایران کے حوالے سے سلامتی کونسل کی کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی۔ اس رپورٹ کے مطابق اس گروپ نے گزشتہ برس ایرانی غیر قانونی ہتھیاروں کی تین بڑی شپمنٹس کے بارے میں تحقیقات کیں۔ اس رپورٹ کے مطابق، ’’ایران نے اپنے اسلحے کی غیر قانونی فروخت کے ذریعے عالمی برادری کی نافرمانی جاری رکھی۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان میں سے دو کیسز میں شام ملوث تھا۔ جبکہ تیسری شپمنٹ میں راکٹوں کی فراہمی کی گئی، جن کے بارے میں برطانیہ کا دعویٰ ہے کہ یہ گزشتہ برس افغان طالبان تک پہنچے تھے۔
شام کے لیے بھیجی جانے والی دونوں شپمنٹس ترک حکام نے اپنے قبضے میں لے لی تھیں۔ ان شپمنٹس میں مشین گنیں، دھماکہ خیز مواد، ڈیٹونیٹرز، 60 اور 120 ملی میٹر کے شیلز شامل تھے۔ رپورٹ کے مطابق ترکی کی طرف سے شام کو ہتھیاروں کی سپلائی کا تازہ ترین واقعہ رواں برس فروری میں پیش آیا جسے ترک حکام نے ناکام بنا دیا۔
aba/ah (Reuters)