1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتافریقہ

اپنے ہی ہیروں کی آمدن سے محروم افریقی ممالک کا المیہ

26 فروری 2023

بر اعظم افریقہ میں ہیروں کی غیر قانونی تجارت نے مقامی لوگوں کو ترقی اور خوشحالی کے حق سے محروم کر رکھا ہے۔ روس سمیت طاقتور ممالک کے اسمگلر ہیروں کی مدد سے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت میں ملوث ہیں۔

https://p.dw.com/p/4NvfW
Weltspiegel 15.06.2021 Südafrika Diamanten Steine
تصویر: SIPHIWE SIBEKO/REUTERS

افریقہ کے ہیروں سے مالا مال ممالک میں اس قیمتی ترین شے کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدن مقامی لوگوں کے معیار زندگی میں بہت کم  بہتری لاتی ہے۔ تاہم بوٹسوانا کو اس معاملے میں استثنٰی حاصل ہے۔ ورلڈ بینک کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یہ زیریں صحارا افریقہ کے سب سے خوشحال ممالک میں سے ایک بن گیا ہے۔

ڈی ڈبلیو نے ہیروں کی صنعت کے اندرونی حالات سے واقف افراد اور ماہرین سے پوچھا کہ افریقہ کے ان ممالک میں کیا ہوتا ہے، جہاں سماجی و اقتصادی فوائد حاصل کیے بغیر جواہرات نکالے جاتے ہیں۔

گزشتہ تین صدیوں میں دریافت ہونے والا سب سے بڑا گلابی ہیرا

Lulo Rose Diamant in Angola entdeckt
ایک سو ستر قیراط وزنی اس ہیرے کو "لولو روز‘‘ کا نام دیا گیا اور یہ 2022ء میں انگلولا کے علاقے لُنڈا نورتے میں دریافت کیا گیا تصویر: Lucapa Diamond Company/AFP

ڈیموکریٹک ریپبلک آف کانگو (ڈی آر سی) میں افریقی ڈائمنڈ کونسل کے صدر ڈاکٹر ایمزی فُولا اینگیگے کا کہنا ہےکہ وسیع پیمانے پر لالچ، بعد از نوآبادیاتی علیحدگی، نیز پبلک سیکٹر اور حکومتی جوابدہی کی کمی کی وجہ سے عدم استحکام اور تنازعات کی ایک تاریخ ہے۔

اینگیگےکا کہنا ہے کہ کانگو کے کچھ خطوں میں تنازعات کا منظر نامہ دوسرے افریقی ممالک میں بار بار دیکھا جاتا ہے، جہاں معدنیات کی بہتات ہے اور یہ کہ ان ممالک کو جان بوجھ کر سیاسی اور سماجی عدم استحکام کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

ہیروں کی غیر قانونی کان کنی

کانگو، انگولا، موزمبیق اور افریقہ کے بہت سے دوسرے معدنیات سے مالا مال ممالک میں جو ایک چیز مشترک ہے وہ معدنی وسائل کے استحصال کی دو الگ الگ منڈیاں ہیں۔ ان میں ایک قانونی طریقے سے باضابطہ طور پر ہیروں کی کان کنی کی صنعت ہے جبکہ دوسری  ایک خفیہ صنعت ہے، جس پر کان کنوں اور ان کے کفیلوں کا غلبہ ہے۔

یہ سمجھنے کے لیے کہ ہیروں کی پیداوار اور تجارت کی خفیہ مارکیٹ کیسے چلتی ہے، ڈی ڈبلیو نے کانگو کی سرحد پر واقع انگولا کے صوبے لنڈا نورٹے میں ہیروں کی کان کنی کے قصبے کافونفو کا دورہ کیا۔

کائینگو اڈیلینو دس سال سے زائد عرصے تک ہیروں کے ایک غیر رسمی کارکن یا گیریمپیروس رہے ہیں۔ 49 سالہ اڈیلینوکا کہنا ہے کہ ایک عام اصول کے طور پرگیریمپیروس کے گروپوں کے اسپانسرز ہوتے ہیں، جو انہیں کان کنی کے لیے ادائیگی کرتے اور ہیرے خریدتے ہیں۔

Simbabwe Frauen graben nach Diamanten
مشرقی زمبابوے کے علاقے مارینج میں خواتین ہیروں کی تلاش میں کھدائی کرتے ہوئےتصویر: AP

سینیگال، چین، فرانس، اریٹیریا، گھانا اور جمہوریہ کانگو کے شہری  قیمتی پتھروں کی خرید و فروخت کے لیے پوشیدہ بازار پر غلبہ رکھتے ہیں، خاص طور پر گیریمپیرو کے ذریعے ہیروں کی کان کنی پر۔

ایک کفیل گیرمپیروز کو کان میں ان کی زندگی گزارنے کے لیے ضروری سامان مہیاکرتا ہے، جس کے بعد اس سامان کی قیمت ہیروں کی ادائیگی سے کاٹ لی جاتی ہے جو گیریمپیروس ہیرے بیچ کر کماتے ہیں۔

اڈیلینو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''آخری بار جب میں نے ہیرا بیچا تو اس کی قیمت 1,250 ڈالر تھی۔ یہ حقیقی قیمتیں نہیں ہیں کیونکہ ہم سے ہیروں کی خریداری کے لیے جو پیمانہ استعمال کیا جاتا ہے وہ اس سے مختلف ہے، جو ہیروں کی فروخت کے بازار میں ہوتا ہے۔‘‘

کافونفو میں  غیر رسمی کارکنوں کی جانب سے نکالے گئے ہیروں کے خریدار ایک اسپانسر یا سرمایہ کار کے طور پر کسی بھی ہیرے کی قیمت فروخت کا  پچاس فیصد حصہ پہلے ہی اپنے پاس رکھتے ہیں اور اس کے بعد بقیہ پچاس فیصد رقم گریمپیروس میں تقسیم کر دی جاتی ہے۔

ترقی یافتہ دنیا  کی 'آنکھیں بند‘

افریقی ڈائمنڈ کونسل کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ افریقی سے نکالے جانے والے خام  ہیروں کی اسمگلنگ کی صورت میں افریقی ہیروں کی کل پیداوار کا اٹھائیس سے بتیس فیصد حصہ ضائع ہو جاتا ہے۔

ڈاکٹر  اینگیگے کا کہنا ہے کہ آمدنی کا تعلق خاص طور پر خام اور قدرتی، غیر دستاویزی یا غیر تصدیق شدہ ہیروں سے ہوتا ہے، جو افریقی  براعظم پر ہیروں کی کان کنی والے ممالک سے باہر ہیروں کے مراکز میں اسمگل کیے جاتے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''بعض صورتوں میں بہت سے غیر قانونی  ہیرے ضبط کر لیے جاتے ہیں اور وہ ان ممالک کی ریاست کی ملکیت بن جاتے ہیں جو انہیں ضبط کرتے ہیں۔ لہٰذا 'ترقی یافتہ دنیا‘،  یقینی طور پر اس قسم کی کوتاہی کی طرف آنکھیں، کان اور منہ بند کرنے کی زمہ دار ہے۔‘‘

Russland ALROSA Diamantensortierzentrum in Jakutien
جمہوریہ سخا کے شہر میرنی میں الروسا کے ہیروں کی چھانٹی کرنے والے مرکز کے شو روم میں نمائش کے لیے ہیرےتصویر: Alexander Ryumin/TASS/dpa/picture alliance

ڈی ڈبلیو نے ہیروں کی جغرافیائی سیاست اور خام ہیروں کی دنیا میں منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کے طریقہ کار کے ایک ماہر سے بات کی جس نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی۔

اس ماہر کا کہنا تھا، ''بعض اوقات ہیروں کو انگولا کی کانوں سے چوری کر کے کانگو  لے جایا جاتا ہے اور پھر ان دستاویزات کے ذریعے دبئی برآمد کیا جاتا ہے، جن میں کہا جاتا ہے کہ یہ ہیرے کانگو سے آئے ہیں، جبکہ اصل میں یہ انگولا سے آتے ہیں۔‘‘ تاہم افریقی ڈائمنڈ کونسل کے صدر کے مطابق اس طرح کی سرگرمیوں سے نمٹنے کا واحد طریقہ غربت سے لڑنا ہے۔

روسی جنگ کو ہوا دیتے ہیرے

انگولا کے ایک صحافی، انسانی حقوق کے کارکن اور معروف کتاب ''بلڈ ڈائمنڈز‘‘کے مصنف رافیل مارکیز ڈی موریس ہیروں کی تصدیق کے عالمی طریقہ کار یا ''کمبرلے عمل‘‘ کو ناقص قرار دیتے ہیں۔ اس بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''یک تنازعہ ہے، مقامی کمیونٹیز کا استحصال ہے، روس کے الروسا گروپ کی طرف سے ہیرے نکالنے میں مقامی برادریوں کے ساتھ بدسلوکی ہے۔‘‘

الروسا انگولا اور افریقہ کے دیگر حصوں میں کان کنی میں دلچسپی رکھتا ہے۔ ''یہ کمبرلے عمل کا مسئلہ ہے۔ یہ کچھ ممالک کے اسٹریٹجک مفادات کے مطابق کام کرتا ہے۔‘‘ روسی ہیروں کی کمائی کا یوکرین کی جنگ میں ایک کردار ہے۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرنے والے ڈائمنڈ جیو پولیٹکس کے ماہر اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا،''الروسا آپریشن سے ہیروں کی آمدنی کو ہدف بنانا اہم  ہے تاکہ یوکرین میں جنگ کے لیے روسی پیسے کے فوری بھاؤ کو روکا جا سکے۔‘‘ اس ماہر کا مزید کہنا تھا، ''بیلجیئم کے وزیر اعظم اپنے فوجیوں کو یوکرین بھیجنے کی تیاری کر رہے ہیں جب کہ بیلجیئم اپنے شہر اینٹورپ میں روسی خام  ہیروں کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کی رقم ماسکو کو فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ کیا یہ مفادات کا ٹکراؤ نہیں ؟‘‘

نیوسا ای سلوا (ش ر⁄ ع آ)