میں اپنی پی ایچ ڈی کے دوران جب بھی کسی سے ملتی اور بتاتی کہ میں پی ایچ ڈی کر رہی ہوں تو وہ اگلا سوال میری تحقیق سے متعلق ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ایک صاحب نے جب یہی سوال کیا تو میں نے انہیں اپنی تحقیق کا مرکزی خیال نہایت سادہ اور آسان الفاظ میں بتانا شروع کر دیا۔ میری بات ختم ہوتے ہی انہوں نے حیرانی سے پوچھا، ”اس پر پی ایچ ڈی ہو جاتی ہے؟" میرے الفاظ سے انہیں لگا کہ میری تحقیق کا موضوع بہت آسان تھا اور غالباً میں بغیر کسی مشقت کے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والی تھی۔
اس وقت مجھے فوراً احساس ہوا کہ میں نے اپنے کام کے لیے غلط الفاظ کا انتخاب کیا تھا۔ میں فوراً انہیں اپنے کام کی مزید تفصیلات دینے لگی لیکن اس وقت وہ وضاحت میرے کام کی اہمیت کو مزید کم کر رہی تھی۔ میں نے اس وقت سیکھا کہ ہمیں اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے اچھے الفاظ کا استعمال کرنا چاہیے۔ اگر ہم دوسروں سے بات کرتے ہوئے اپنے بارے میں اچھے اور متاثر کن الفاظ کا استعمال نہیں کریں گے تو لوگ بھی ہمیں اور ہمارے کام کو اہم نہیں سمجھیں گے۔
اس واقعے کے بعد بھی کئی مواقع پر مجھے یہ احساس ہوا کہ میں اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے مناسب الفاظ کا انتخاب نہیں کرتی تھی۔ ہمیں بچپن سے یہ سکھایا جاتا ہے کہ اپنے بارے میں زیادہ بات کرنا نامناسب ہے۔ خاص طور پر لڑکیوں اور خواتین کو یہ بات بار بار باور کروائی جاتی ہے کہ انہیں کم بولنا چاہیے اور دوسروں سے بات کرتے ہوئے اپنے بارے میں زیادہ نہیں بتانا چاہیے ورنہ دوسرے انہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
دوسری طرف جب میں اپنے اردگرد مردوں کو دیکھتی ہوں تو احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے معمولی سے کام کو بھی بڑے فخر اور مبالغے کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ ان کے ساتھی ان کے کام کو تعریفوں کے پل باندھتے ہوئے مزید نمایاں کرتے ہیں۔ مردوں کی پرورش ایک مختلف انداز میں ہوتی ہے۔ انہیں زیادہ روک ٹوک کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ انہیں کوئی نہیں بتاتا کہ وہ کیسے بیٹھیں، کیسے چلیں، کیا پہنیں اور کیا اوڑھیں۔ نہ ان کے بولنے، ہنسنے، یا اپنی رائے دینے کے انداز پر کوئی اعتراض کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کھل کر اپنی ذات اور خیالات کا اظہار کرتے ہیں اور خوداعتمادی کے ساتھ اپنی ذات، اپنے کام اور اپنی کامیابیوں کو دوسروں کے سامنے بیان کرتے ہیں۔
ہم شادیوں پر اکثر لڑکیوں کے رقص سے زیادہ لڑکوں کے رقص سے لطف کیوں اٹھاتے ہیں؟ میرے خیال میں اس کی ایک اہم وجہ یہی سماجی بندشیں ہیں، جن کا اثر لڑکیوں کے رویے اور حرکات پر نمایاں ہوتا ہے۔ لڑکیاں پہلے تو رقص کرنے پر ہی آمادہ نہیں ہوتیں اور اگر وہ آمادگی ظاہر کر بھی دیں تو ان کا انداز بے حد محتاط ہوتا ہے۔ ان کی نظریں زمین پر جمی رہتی ہیں، ان کا جسم آزادانہ حرکت نہیں کرتا اور ان کے انداز میں جھجھک صاف نطر آ رہی ہوتی ہے۔ دوسری طرف مرد ان سماجی بندشوں سے آزاد کھل کر رقص کرتے ہیں۔ ان کے چہرے اور جسم کا ہر عضلہ کھل کر حرکت کرتا ہے اور وہ اپنے رقص کے ذریعے اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کرتے ہیں۔ ان کا یہی اظہار ان کے رقص کو کئی گنا زیادہ لطف انگیز بنا دیتا ہے۔
لیکن کیا ان لڑکیوں نے وہی رقص نہیں کیا ہوتا۔ کیا انہوں نے کئی ہفتوں پہلے سے رقص کی مشقیں نہیں کی ہوتی؟ کیا وہ سٹیج پر اسی ہمت یا شوق سے نہیں آتیں؟ فرق بس اتنا ہے کہ وہ اپنے آپ کو لڑکوں کی طرح آزاد محسوس نہیں کرتیں اور اپنی اداؤں اور حرکتوں سے اس آزادی کا اظہار نہیں کرتیں تو ہم ان کے رقص کو لطف انگیز نہیں سمجھتے۔
ماہرہ خان کے آخری ڈرامے ہم کہاں کے سچے تھے، میں مہرین کا کردار اس رویے کی بہترین مثال ہے۔ مہرین، جو اپنی تعلیم اور غیر نصابی سرگرمیوں میں شاندار کارکردگی دکھاتی تھی، دوسروں کے سامنے اپنی صلاحیتوں اور کامیابیوں کا ذکر نہیں کرتی تھی۔ اس کا شوہر اسے معمولی سمجھ کر اس کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے۔ سالوں بعد اسے ایک محفل میں پتہ لگتا ہے کہ اس کی بیوی کتنی باصلاحیت تھی۔ لیکن اس وقت تک وہ اسے اپنی پرتشدد طبیعت کی وجہ سے نفسیاتی مریض بنا چکا ہوتا ہے۔
مہرین کی طرح جانے کتنی لڑکیاں اور خواتین اپنے بارے میں بات نہ کرنے کہ وجہ سے ترقی کے بہت سے مواقع ضائع کر دیتی ہیں۔ ان کی قابلیت اور صلاحیت بس کسی کی یاداشت کا حصہ بن کر رہ جاتی ہے۔ وہ نئے لوگوں سے ملتی بھی ہیں تو اپنے بارے میں کھل کر بات نہیں کرتیں اور اگر بات کریں بھی تو اپنے کام کے بارے میں ایسے بات کرتی ہیں جیسے وہ اہم نہ ہو۔ نتیجتاً، وہ مواقع جو ان کا حق ہو سکتے تھے، ان سے چھن کر دوسروں کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں۔
عاجزی بلاشبہ ایک خوبصورت صفت ہے لیکن عاجزی اور اپنے آپ کو بے وقعت سمجھنے یا پیش کرنے میں ایک واضح فرق ہے۔ پاکستان جیسے معاشرتی نظام میں، جہاں لوگوں کی شناخت اکثر ان کے خاندان، حیثیت اور کام سے جڑی ہوتی ہے، وہاں اپنے بارے میں بات کرنا نہ صرف ضروری بلکہ بعض اوقات کامیابی کی شرط بن جاتا ہے۔ اگر آپ اپنی صلاحیتوں اور کام کو نمایاں نہ کریں تو لوگ آپ کو غیر اہم سمجھنے لگتے ہیں۔
اس لیے، اپنے بارے میں بات کرتے ہوئے شرم اور جھجھک کو ایک طرف کریں اور مکمل اعتماد اور فخر سے اپنےکام کے بارے میں بات کریں۔ اپنی کامیابیوں کو قبول کریں اور انہیں اپنی محنت کا نتیجہ قرار دیں۔ دوسروں کے سامنے اپنے بارے میں منفی تاثرات دینے سے گریز کریں، مثلاً ”میں نے کوشش کی تھی لیکن کامیاب نہیں ہو سکی" کہنے کی بجائے یوں کہیں: "میں نے پوری لگن سے کام کیا اور بہت کچھ سیکھا۔"
یاد رکھیں، آپ کے الفاظ نہ صرف آپ کی شخصیت کا آئینہ ہوتے ہیں بلکہ دوسروں کے ذہن میں آپ کی اہمیت اور قابلیت کا تاثر بھی یہی بناتے ہیں۔ اس لیے اپنی کہانی اس انداز میں سنائیں کہ لوگ آپ کی صلاحیتوں اور کام کی قدر کریں۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔