اورکزئی ایجنسی میں 65 افراد کو کوڑوں کی سزا
1 نومبر 2010طالبان کے ایک ترجمان نے، جس نے اپنا نام حافظ سعید بتایا، ٹیلی فون پر خبر ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ یہ کارروائی اورکزئی کے اس قبائلی علاقے میں کی گئی، جس کے بارے میں پاکستانی فوج کا دعویٰ ہے کہ وہ طالبان عسکریت پسندوں کو زیادہ تر وہاں سے نکال چکی ہے۔
حافظ سعید کے بقول جن 65 ’ملزمان‘ کو کوڑے مارے گئے، انہیں اس مقصد کے لئے ماموزئی میں ایک ایسے کھلے میدان میں جمع کیا گیا تھا، جہاں بچے اکثر فٹ بال کھیلتے ہیں یا خاص مواقع پر مذہبی اجتماعات کے دوران خطبے دئے جاتے ہیں۔
طالبان کے اس ترجمان کے مطابق ان 65 افراد میں سے ہر کسی کو دس دس کوڑے مارے گئے ۔ ترجمان کے مطابق ان مبینہ ملزمان پر یہ الزامات ثابت ہو گئے تھے کہ وہ یا تو خود منشیات استعمال کرتے تھے یا ان کی فروخت میں ملوث تھے، جس کے بعد انہیں ’ایک اسلامی عدالت نے یہ سزا سنائی، جس پر عملدرآمد سرعام کیا گیا۔‘
پاکستانی سکیورٹی تجزیہ نگار وں کے مطابق اورکزئی ایجنسی میں بیسیوں افراد کو کوڑے مارنے کے واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ کس طرح القاعدہ سے رابطے رکھنے والے مقامی طالبان شمال مغربی پاکستان میں اپنی شدت پسندانہ مذہبی سوچ کو نافذ کرنے کی کوششیں کرتے ہیں۔
ان ماہرین کے مطابق یہ پیش رفت اس لئے بھی تشویشناک ہے کہ پاکستانی حکومت بار بار یہ کہتی ہے کہ قبائلی علاقوں، خاص کر اورکزئی ایجنسی میں، وسیع تر فوجی کارروائی کے نتیجے میں وہاں طالبان کی موجودگی بہت کم ہو چکی ہے اور ایسے شدت پسندوں کو بہت کمزور بھی کیا جا چکا ہے۔
پاکستانی سکیورٹی دستوں نے اورکزئی میں اپنے آپریشن کا آغاز اس سال مارچ میں کیا تھا۔ اس علاقے کو سرکاری اور سکیورٹی ذرائع پاکستانی طالبان کے اعصابی مرکز کا نام دیتے ہیں، جہاں ان عسکریت پسندوں کے تربیتی مراکز بھی موجود ہیں۔
اورکزئی میں مقامی قبائلی باشندوں کے مطابق ان 65 افراد کو کوڑے مارنے کی سزا پر جو عملدرآمد کیا گیا، اسے تقریباﹰ 600 افراد نے دیکھا۔ ان مقامی باشندوں کو مسجدوں میں بار بار کے اعلانات کے ذریعے یہ کہا گیا تھا کہ وہ اس سزا پر عملدرآمد کو دیکھنے کے لئے ہر حال میں ماموزئی کے میدان میں جمع ہوں۔
چند عینی شاہدین کے مطابق ملزمان کو سزا دینے کے لئے پانچ پانچ کے گروپوں میں وہاں موجود سینکڑوں افراد کے سامنے لایا گیا، جس کے بعد ان میں سے ہر کسی کو دس دس کو ڑے مارے گئے اور پھر انہیں رہا کر دیا گیا۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک