اوباما نے ’جاسوس میننگ‘ کی سزا میں کمی کر دی
18 جنوری 2017وائٹ ہاؤس کے مطابق باراک اوباما کی جانب سے اس اعلان کے بعد میننگ کی سزا پینتیس سال سے کم کر کے سات سال کر دی گئی ہے اور رواں برس سترہ مئی کو یہ مدت پوری ہو جائے گی، جس کے بعد میننگ آزاد ہوں گی۔ میننگ ریاست کینساس کی ایک فوجی جیل میں اپنی سزا کاٹ رہی ہیں۔انہیں خفیہ فوجی راز وکی لیکس کو مہیا کرنے پر پینتیس سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
وکی لیکس کے بانی جولیان آسانج نے چیلسی میننگ کی سزا کم کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ آسانج کے قانونی مشیر بیری پولاک کے مطابق، ’’چیلسی جیسے لوگوں نے عوام کے مفادات کی خاطر ایسا کیا تھا۔ ان پر تو مقدمہ چلنا ہی نہیں چاہیے تھا اور نہ ہی انہیں اتنی لمبی سزا ملنی چاہیے تھی۔‘‘ وکی لیکس کی جانب سے گزشتہ جمعرات کو کہا گیا تھا کہ اگر چیلسی کو رہا کر دیا گیا تو جولیان آسانج خود کو امریکی حکام کے حوالے کر دیں گے۔‘‘ آسانج اپنی سویڈن اور امریکا حوالگی سے بچنے کے لیے آج کل لندن میں قائم ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
چیلسی میننگ نے تین سال قبل بھی باراک اوباما سے معافی کی درخواست کی تھی۔ چیلسی نے 2013ء میں انکشاف کیا تھا کہ وہ مرد نہیں خاتون ہیں۔ وہ بطور بریڈلی میننگ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں حصہ لے چکی تھیں۔ میننگ گزشتہ چھ برسوں سے سلاخوں کی پیچھے ہیں۔
میننگ کو 2010 میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا، جب وہ بغداد میں تعینات تھیں۔ انہوں نے تقریباً سات لاکھ خفیہ امریکی دستاویزات کے علاوہ کئی ویڈیوز بھی وکی لیکس کو فراہم کی تھیں۔ ان میں وہ ویڈیو بھی شامل تھی،جس میں ایک امریکی فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے کئی عام شہریوں کو گولیاں مار کر ہلاک کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔
امریکی صدر نے قیدیوں کی سزا میں کمی کرنے کے اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے مزید 64 افراد کو بھی معاف کیا ہے، جن میں ریٹائرڈ جنرل جیمز کارٹرائٹ بھی شامل ہیں۔ کارٹرائٹ پر خفیہ راز افشا کرنے کے اسکینڈل میں غلط بیانی کا الزام تھا۔