1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انگلینڈ کرکٹ میں نسل پرستی اور صنفی تعصب موجود، رپورٹ

28 جون 2023

انگلینڈ میں کرکٹ میں نسل پرستی اور تعصب کے واقعات کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے غیر مشروط معافی مانگی ہے۔ آزاد کمیشن برائے مساوات نے انگلینڈ میں کرکٹ میں نسلی اور صنفی تعصب کی نشاندہی کی ہے۔

https://p.dw.com/p/4T9JL
England Cricket Nationalmannschaft WM 2019
تصویر: Clive Mason/Getty Images

آزاد کمیشن برائے مساوات نے انگلینڈ میں کرکٹ میں پائی جانے والی نسل پرستی اور صنفی تعصب کے متعلق 317 صفحات پر مشتمل اپنی رپورٹ منگل کے روز جاری کی۔ رپورٹ کے مطابق انگلینڈ میں کرکٹ میں نسل پرستی، صنفی تعصب اور اونچ نیچ پر مبنی تفریق داخل ہو چکی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انگلینڈ کرکٹ میں خواتین کے ساتھ دوسرے درجے کا شہری "جیسا سلوک کیا جاتا ہے اور اب ریاستی اسکولوں میں شاذ و نادر ہی کوئی کرکٹ کو متبادل کے طورپر منتخب کرتا ہے۔"

رپورٹ کی اشاعت کے بعد انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے چیئرمین رچرڈ تھامسن نے غیر مشروط معافی مانگ لی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس رپورٹ کے بعد اب "ہمیں جاگ جانا چاہئے۔"

رپورٹ کی ضرورت کیو ں پیش آئی

یہ کمیشن ایک پاکستانی نژاد عظیم رفیق کے علاوہ بعض کھلاڑیوں کی طرف سے عائد کردہ الزامات کے بعد قائم کیا گیا تھا۔ کمیشن نے برطانیہ میں مقیم چار ہزار لوگوں سے رائے لے کر یہ رپورٹ مرتب کی ہے۔ اس رپورٹ کو "کرکٹ کو آئینہ دکھانے"کا نام دیا جارہا ہے۔

انگلش ’جنونی‘ مداحوں کا نسل پرستانہ رویہ

سن 2020 میں اس وقت انگلینڈ کرکٹ میں ہنگامہ برپا ہو گیا تھا جب یورکشائر کے سابق کھلاڑی عظیم رفیق نے اپنے ساتھ پیش آنے والے ان واقعات کی تفصیلات بتائی تھیں کہ کس طرح انہیں نسلی طور پر ہراساں کیا گیا۔

سن 2021 میں ایک پارلیمانی کمیٹی کے سامنے پیشی کے دوران عظیم رفیق نے پرنم آنکھوں کے ساتھ اسلاموفوبیا کا ذکر کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انہیں ڈرایا دھمکایا گیا تھا۔

عظیم رفیق نے کہا تھا، "اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ کیا نسل پرستی کی وجہ سے میرا کیریئر ختم ہوا ہے تو میں کہوں گا کہ ہاں، ایسا ہی ہے۔"

خواتین کھلاڑیوں کو کھیل کا معاوضہ مردوں سے کم دیا جاتا ہے جبکہ انہیں لارڈز جیسے تاریخی گراؤنڈ میں کھیلنے نہیں دیا جاتا ہے
خواتین کھلاڑیوں کو کھیل کا معاوضہ مردوں سے کم دیا جاتا ہے جبکہ انہیں لارڈز جیسے تاریخی گراؤنڈ میں کھیلنے نہیں دیا جاتا ہےتصویر: Imago Images/Uk Sports Pics Ltd/P. Dovgan

غیر مشروط معافی

رپورٹ میں ان عوامل کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے باعث انگلینڈ کا کرکٹ سسٹم داغدار ہو چکا ہے اور تعصب بہت گہرائی تک سرایت کر چکا ہے۔

انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے سربراہ رچرڈ تھامسن نے کمیشن کی سربراہ سنڈی بٹس کے نام ایک خط میں ان تمام کھلاڑیوں سے غیر مشروط اور بلا تردد معافی مانگی ہے "جو سسٹم میں نظر انداز کیے گئے یا پھر انھیں یہ محسوس ہوا کہ وہ اس سسٹم کا حصہ نہیں ہیں۔" 

لندن پولیس میں نسل پرستی، جنسی تعصب کا انکشاف

انہوں نے کہا کہ "رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ خواتین اور سیاہ فام افراد کو ایک طویل عرصے سے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، ہم اس کے لیے دل سے معذرت خواہ ہیں۔"

رچرڈ تھامسن نے کہا کہ "اب وقت آ گیا ہے کہ اس سسٹم کو دوبارہ تعمیر کیا جائے جس میں سب کے پاس مساوی مواقع ہوں اور کسی سے کوئی زیادتی نہ ہو۔"

انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے سربراہ رچرڈ تھامسن نے ان تمام کھلاڑیوں سے غیر مشروط  معافی مانگی ہے جو سسٹم میں نظر انداز کیے گئے
انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ کے سربراہ رچرڈ تھامسن نے ان تمام کھلاڑیوں سے غیر مشروط معافی مانگی ہے جو سسٹم میں نظر انداز کیے گئےتصویر: A. Parvez

رپورٹ میں کیا کہا گیا ہے؟

کمیشن کی سربراہ سنڈی بٹ نے دیباچے میں تحریر کیا کہ "یہ رپورٹ ان تمام حلقوں کو پریشان کر دے گی جو اس سے متعلق ہیں۔"

کمیشن نے کہا کہ ایسے کھلاڑی جو گوری رنگت کے نہیں ہیں ان کے ساتھ کسی نہ کسی مرحلے پر نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ "وہ کھلاڑی جن کے آباؤاجداد انگلینڈ کے نہیں ہیں انھیں بھی نفرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔"

کمیشن نے خواتین کھلاڑیوں کے ساتھ تفریق کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ "صنفی تفریق کے ساتھ انہیں کھیل کا معاوضہ مردوں سے کم دیا جاتا ہے جبکہ انہیں لارڈز جیسے تاریخی گراؤنڈ میں کھیلنے نہیں دیا جاتا جس سے ان کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ان کی کرکٹ کو کم درجہ کھیل سمجھا جاتا ہے۔"

نسل پرستانہ عمل پر بھی سخت سزا دینا چاہیے، جیسن ہولڈر

امریکا میں مظاہرے: نسل پرستی تو یورپ کا بھی مسئلہ ہے

رپورٹ میں ان عوامل کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے باعث سسٹم داغدار ہو چکا ہے اور تعصب بہت گہرائی تک سرایت کر چکا ہے۔ کمیشن نے سفارش کی ہے کہ غیر ملکی کھلاڑیوں کو بھی مقامی کھلاڑی کے برابر حقوق دیے جائیں۔ اس نے ایک ایسے ڈائریکٹر کی تعیناتی پر زور دیا ہے جو مساوات اور باہمی تعلقات پر مسلسل نظر رکھے۔

انگلینڈ کے کپتان بین اسٹوکس نے کہا کہ انہیں کھلاڑیوں کے ساتھ کیے جانے والے تفریقی سلوک پر انتہائی افسوس ہے۔ انہوں نے کہا" ہمیں ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جولوگوں کو محفوظ بناسکے اور وہ خود کو ہر سطح پر برابر سمجھ سکیں۔"

ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز)