یہاں ہم موسمیاتی تغیرات کی بالکل بات نہیں کریں گے بلکہ ہمارا اشارہ ہر لمحہ جاری رہنے والی جنگ و جدل کی طرف ہے۔ کبھی مشرق میں تو کبھی مغرب میں، کبھی شمال میں تو کبھی جنوب میں! کہیں نہ کہیں جنگ کا دہکتا آتش فشاں انسانی جانوں کا اخراج وصول کرتا رہتا ہے۔
موسمیاتی بدلاﺅ بھی اگرچہ اس 'جدید انسان‘ ہی کا کارنامہ ہے لیکن ان جنگوں کا کیا کیجیے گا کہ جن کی تاریخ اتنی زیادہ پرانی ہے جتنی کہ خود انسان کی! یہ انسان کے مختلف جذبات اور اختلافات کا انتہائی نتیجہ ہیں اور اس وقت سے جاری ہیں کہ جب انسان نے آتشیں ہتھیار بھی نہیں جانے تھے بلکہ شاید جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے، اس نے زندہ رہنے کے ساتھ ساتھ لڑنا مرنا بھی سیکھ ہی لیا۔ اگر 'قابیل‘ کے ہاتھوں 'ہابیل‘ کا قتل دیکھیے، تو ہم اسے انسانی تاریخ کی اولین 'جنگ‘ شمار کر سکتے ہیں۔ پھر وقت آگے بڑھا، انسان نے باقاعدہ گروہوں کی شکل میں رہنا شروع کیا اور پھر 'گروہی مفادات‘ اور ان میں قیادت و حکم رانی کے مسئلے چل نکلے، کہیں قیادت حاصل کرنے کے جھگڑے، تو کہیں دو گروہوں کے درمیان طاقت کے حصول کے لیے خوں ریزی، پھر ریاست کا وجود اور پھر ان ریاستوں کے درمیان تنازعات اور قتل و قتال، جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ مارے جاتے رہے۔ کسی نے حق و باطل کا نعرہ لگایا تو کسی نے افضل اور برتری کی بنیاد پر خون بہایا تو کوئی خیر و شر کا میزان اٹھا لایا۔
دوسری طرف تیروں، تلواروں اور نیزوں سے بات جدید خود کار ہتھیاروں تک جا پہنچی اور ہلاکت خیزی کئی گنا بڑھ گئی۔ اگر دنیا میں جنگ مستقل جاری رہی تو امن کے لیے بھی بہت سی کوششیں ہوئیں۔ بیسویں صدی میں دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر 1945 میں ایک انجمن اقوام متحدہ وجود میں آئی، جس کا ایک بڑا اور کلیدی مقصد دنیا کو جنگوں سے بچانا تھا۔ یہ پچھلی ایسی کاوشوں کے مقابلے میں اس اعتبار سے تو کامیاب رہی کہ اس کے بعد تیسری عالمی جنگ کے لیے رکاوٹ ہو گئی، لیکن 1950 ہی کی دہائی میں ویت نام کی جنگ ہو یا کوریا کی، اس کے بعد افغانستان اور سوویت یونین کا طویل محاذ ہو یا ایران اور عراق کا طویل تنازع اور اس کے بعد چیچنیا، کوسوو، یوگوسلاویہ سے لے کر لبنان کی خانہ جنگی اور 'عرب بہار‘ کے نتیجے میں ہونے والی شام کی خوں ریزی اور یمن میں مسلح گروہوں کے کشت و خون کا طویل سلسلہ بھی موجود رہا۔ اس کے بعد حالیہ دنوں تک آئیے، تو مشرقی یورپ کی جنگ کو فروری 2025 میں تین سال ہو جائیں گے، اس جنگ میں اب تک ساڑھے تین لاکھ جانیں تلف ہو چکی ہیں۔ ایسے ہی مشرق وسطیٰ کے جاری مسلح تنازعات اب تک ہزاروں جانیں نگل چکے ہیں۔ گویا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دنیا جدید، روشن خیال اور مفکرانہ ہونے کے باوجود آج بھی جنگ اور خوں ریزی سے جان نہیں چھڑا سکی ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک بھی جنگ کو ناپسندیدہ کہتے ہیں اور لوگوں کو پر امن رد عمل اور بنا تشدد کے جد و جہد کی جانب راغب کرتے ہیں لیکن عملاً دنیا بھر میں ہتھیاروں کی صنعتیں ترقی کر رہی ہیں۔ 1945 میں جوہری ہتھیاروں کے تجربے کے بعد مہلک سے مہلک ہتھیاروں کی دوڑ بدستور جاری ہے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ دنیا جنگوں سے محفوظ کیوں کر ہو گی؟ شاید دنیا کے بڑے فیصلہ سازوں کی روزی روٹی انہی تنازعات سے چلتی ہے۔ پروپیگنڈا وار مختلف وبائیں اور ان کے علاج سے لے کر ہتھیاروں اور اسلحے کی دوڑ تک یہ سب ایسے نازک معاملات لگتے ہیں کہ جن کی اصلیت سے شاید ہی کبھی پردہ اٹھ سکے۔ جنگوں کے نتیجے میں نہ صرف موسمیاتی حدت میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ مہلک امراض کو بھی بڑھاوا ملتا ہے۔ دنیا میں انسانی المیوں بشمول غربت، بیماریوں اور خوراک کا بحران بڑھتا ہے۔ سب سے بڑھ کر مسلح تصادم کے شکار خطوں کی معیشتیں گرانی کا شکار ہوتی ہیں، جس کے نتیجے میں وہاں سطح غربت مزید پست ہو جاتی ہے۔
ان جنگوں کے بالواسطہ اور بلاوسطہ متاثرین میں خواتین اور بچوں کی ایک بہت بڑی تعداد شامل ہوتی ہے۔ کہنے کو تو یہ جنگیں پورا انسانی المیہ ہی ہوتی ہیں، جس کی ایک کڑی دوسرے سے جڑی ہوئی ہے۔ کسی بھی معاشرے کے مرد اگر جنگ میں شرکت کرنے کے باعث براہ راست اس کی نذر ہوتے ہیں، تو ان کے پیچھے خواتین اور بچوں کی حالت مزید دگرگوں ہوتی ہے۔ مشرقی یورپ کی جنگ ہی میں ہلاکتوں میں نصف سے زیادہ تعداد یعنی ڈھائی لاکھ خواتین اور بچوں کی ہلاکتیں ہو چکی ہیں، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ متحارب فوجوں نے اپنے مفادات کی خاطر عام آبادیوں کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا ہے۔ دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں بھی واضح طور پر مقتولین، زخمیوں اور قیدیوں کی آدھی تعداد خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔
جدید دنیا میں جنگوں کا کسی نہ کسی محاذ پر جاری رہنا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ بڑی طاقتوں کے مفاد انھی جنگوں سے وابستہ ہیں، کہیں بالواسطہ اور کہیں بلاواسطہ عالمی طاقتیں چاہتی ہیں کہ ایک دوسرے پر بالادستی حاصل کریں، ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بڑی طاقتیں اپنے سیاسی اور معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے کہیں مسلح اور کہیں سیاسی تنازعات میں الجھی ہوئی ہیں۔ امن کی اہمیت سے سب واقف ہیں تو پھر کبھی کسی نام پر تو کبھی کسی عنوان سے دنیا بھر میں کسی نہ کس دنیا میں جنگیں یوں ہی جاری رہیں گی؟ ایسے ہی مہلک ہتھیاروں کا بے دریغ استعمال ہوتا رہے گا؟ کیا معصوم جانوں کا ضیاع یونہی جاری رہے
گا؟
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔