انسانی بحران کی صورتحال اس سال بھی تبدیل نہیں ہو گی، ویلیری آموس
3 جنوری 2014ویلیری آموس کے بقول مدد کے منتظر افراد ملینز میں ہیں اور جاری تنازعات کی وجہ سے یہ تعداد مسلسل بڑھتی جا رہی ہے۔ نیویارک میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 2013ء انسانی بھلائی کے عالمی نظام کے لیے ایک امتحان تھا اور 2014ء اس سے مختلف نہیں ہو گا۔ ویلیری کے بقول شام میں گزشتہ تین برسوں سے جاری خانہ جنگی اور فلپائن میں آنے والے سمندری طوفان کے باعث ضرورت مند افراد کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی سوڈان اور وسطی افریقی جمہوریہ کے بگڑتے ہوئے حالات کی وجہ سے اس عالمی ادارے کو مدد کرنے کی اپنی صلاحیتوں اور دائرے کو بڑھانا ہو گا۔ وہ کہتی ہیں کہ اس صورتحال میں یہ بالکل واضح ہے کہ اقوام متحدہ اور اس کے ساتھیوں کو ماضی کے مقابلے میں مزید تعاون کی ضرورت ہے۔ اس موقع پر انہوں نے بحرانوں کے شکار افراد کی بہتر مدد کرنے کے سلسلے میں بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور اداروں سے 2014ء کے دوران اضافی تعاون کی درخواست بھی کی۔
ایک اندازے کے مطابق فلپائن میں گزشتہ برس آنے والے سمندری طوفان کے باعث عالمی امداد پر انحصار کرنے والوں کی تعداد 14ملین ہے۔ اسی طرح مارچ 2011ء سے جاری شامی تنازعے کی وجہ سے جہاں ایک لاکھ سے زائد شہری ہلاک ہو چکے ہیں وہیں کئی ملین افراد غذائی قلت کا شکار ہیں۔ متعدد علاقوں میں طبی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، جس کی وجہ سے انسانی بحران کی شدت بڑھتی جا رہی ہے۔ ویلیری کے بقول تقریباً 65 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور 23 لاکھ کے لگ بھگ شامی باشندے پڑوسی ملکوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اقوام متحدہ کا موقف ہے کہ شام کا مسئلہ سیاسی انداز میں حل کیا جائے کیونکہ ہر گزرنے والا دن مشکلات میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔ آموس نے مالی اور صومالیہ کے حالات پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا۔
گزشتہ مہینے اقوام متحدہ نے اب تک کی سب سے بڑی امدادی مہم شروع کی تھی۔ اس دوران ساتھی ممالک سے اس سال کے لیے تقریباً ساڑھے نو ارب یورو اکھٹے کرنے کی درخواست کی گئی تھی تاکہ فلاحی اداروں کی سترہ ممالک میں موجود 52 ملین ضرورت مندوں تک رسائی ممکن ہو سکے۔ اس موقع پر انہوں نے امدادی تنظیموں کے کارکنوں کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ یہ افراد انتہائی مشکل حالات میں اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
عدنان اسحاق
عصمت جبیں