ایران کو جوہری ہتھیار نہیں بنانے دیں گے: لائیڈ آسٹن
20 نومبر 2021
امریکی وزیر دفاع نے ہفتے کے روز اپنے اس خطاب میں علاقائی اور بین الاقوامی دونوں سطح پر اس وقت تشویش کا باعث بنے ہوئے چیدہ چیدہ مسائل کے بارے میں امریکی موقف کو بھرپور طریقے سے اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ امریکا کے اعلیٰ دفاعی اہلکار کا کہنا تھا، ' تہران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکا جائے گا اور مشرق وسطیٰ میں خود کؑش ڈرون کے ' خطرناک استعمال‘ کا بھرپور مقابلہ کیا جائے گا۔‘‘ لائیڈ آسٹن کی طرف سے ان عزائم کا اظہار ایک ایسے وقت میں کیے گیا جب ایران کے ساتھ عالمی ایٹمی معاہدے کے تعطل شدہ مذاکرات کا بحال نہ ہو سکنا باعث تشویش بنتا جا رہا ہے۔
’ہم تمام مشکلات پر قابو پا لیں گے‘ ایرانی صدر
خلیجی عرب کو یقین دہانی
بحرین میں سالانہ ماناما ڈائیلاگ کی تقریب میں امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے بیانات کو امریکا کے اپنے عرب خلیجی اتحادیوں کو یقین دہانی کے مقصد کے طور پر دیکھا جا رہا ہے جو غیر معمولی اہمیت کا حامل مقصد ہے، خاص طور سے ایک ایسے وقت میں جب امریکی صدر جو بائیڈن انتظامیہ جوہری معاہدے کو بحال کرنے کی کوشش کر رہی ہے جس نے ایران کی طرف سے یورینیم کی افزودگی کو محدود کرنے کے عوض اُس پر لگی اقتصادی پابندیاں اُٹھانا کی بات کی ہے۔
ایک طرف، ایران اور مشرق وسطیٰ کے ساتھ معاملات ہیں تو دوسری جانب واشنگٹن انتظامیہ اپنی توجہ چین کے ساتھ امریکا کے مقابلے کی دوڑ پر مبذول کیے ہوئے ہے۔ اس سب کے درمیان لائیڈ آسٹن نے ہفتے کو مشرق وسطیٰ میں اپنے اتحادیوں کو دوبارہ اس امر کا یقین دلانے کو اہم جانا کہ واشنگٹن ماضی کی طرح اب بھی مشرق وسطیٰ کے خطے کے مقاصد و مفادات کے ساتھ مخلص اور پرُ عزم ہے۔
آسٹن کی تقریر کے اثرات
اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ آسٹن کی تقریر کس حد تک مؤثر ثابت ہو گی کیونکہ انہوں نے اپنی تقریر میں مشرق وسطیٰ کو نہ تو ہتھیاروں کی فروخت کی نہ ہی مزید فوجی تعیناتی کے موضوع کو چھیڑا۔
عرب خلیجی ریاستیں فوجی اعتبار سے امریکا پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں۔ ان ریاستوں کی طرف سے خاص طور سے افغانستان سے فوجی انخلا کی تکمیل کے بعد سے امریکی صدر جوبائیڈن کی مشرق وسطیٰ کے خطے کی طرف توجہ کے بارے میں غیر یقینی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ عرب خلیجی ریاستیں عالمی طاقتوں کی ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کی کوششوں پر نظریں جمائے ہوئی ہیں۔ ایٹمی ڈیل میں واپسی کے لیے امریکا کے پاس وقت کم ہے: جواد ظریف
آسٹن کے ماناما میں دیے گئے بیانات سے قبل خلیجی شیخوں نے امریکا کے افراتفری اور انتہائی جلد بازی میں افغانستان سے فوجی انخلا کا جائزہ لیتے رہے ہیں اور ان کی طرف سے اس بارے میں تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے کہ امریکا مستقبل میں اس خطے میں اپنی دفاعی سرگرمیاں کس حد تک جاری رکھے گا۔
چین اور روس سے خطرات
خلیجی ممالک کے دفاعی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ وہ چین اور روس کی جانب سے درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا کی اس خطے سے وابستگی کو ایک محور ایک مرکز کے طور پر نہایت اہم سمجھتے ہیں۔
اس حقیقت کے باوجود کہ امریکا کے اب بھی مشرق وسطیٰ کے خطے میں بہت سے فوجی اڈے موجود ہیں، بائیڈن انتظامیہ اس بات کا عندیہ دے چُکی ہے کہ امریکی فوجی حکام مشرق وسطیٰ سے باہر دیگر علاقوں میں ایک وسیع فوجی رد و بدل کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں۔
ایرانی جوہری سائنسدان کو ’اسرائیلی انٹیلیجنس موساد‘ نے قتل کروایا
اس طرف اشارہ کرتے ہوئے لائیڈ آسٹن کا کہنا تھا،'' ہم ممکنہ طور پر جر کچھ کر سکتے ہیں اُس میں ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھی اپنا کتنا حصہ ڈال سکتے ہیں اور ہم تیزی سے اس میں کس طرح شامل ہو سکتے ہیں۔‘‘ امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن کے بقول، '' ہمارے دوست اور دشمن دونوں جانتے ہیں کہ امریکا اپنے انتخاب اور وقت کے تعین کی مناسبت سے زبردست اور غالب فورسز تعینات کر سکتا ہے۔‘‘
ک م/ ع ب ) روئٹرز، اے ایف پی(