امریکی فوجی مداخلت سے شامی عوام کی تکلیف کم نہ ہوتی، اوباما
29 مارچ 2014باراک اوباما کا مزید کہنا تھا کہ امریکی افواج عراق اور افغانستان میں طویل جنگوں کے بعد پہلے ہی صلاحیت کے اعتبار سے اپنی آخری حدوں تک پہنچ چکے تھے۔
امریکی صدر باراک اوباما سے انٹرویو کے دوران CBS ایوننگ کے نیوز اینکر کی طرف سے پوچھا گیا کہ کیا انہیں شام میں فوج استعمال نہ کرنے پر کوئی افسوس نہیں ہے جہاں تین سال سے جاری خانہ جنگی کے باعث اب تک 140,000 سے زائد افراد ہلاک جبکہ لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔
باراک اوباما کا کہنا تھا، ’’میرے خیال میں یہ ایک غلط تصور ہے کہ ہم اس پوزیشن میں تھے کہ چند ایک طے شدہ فوجی حملوں کے ذریعے ان مسائل اور تکالیف کو روک سکتے تھے جو ہم شام میں اس وقت دیکھ رہے ہیں۔‘‘ اوباما کا مزید کہنا تھا، ’’اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا فائدہ کوئی نہیں تھا، اصل بات یہ ہے کہ ایک دہائی کی جنگ کے بعد، آپ کو معلوم ہے کہ امریکہ کی صلاحیت کے حوالے سے بھی حدود ہیں۔‘‘
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق امریکی صدر کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا کہ اگر امریکا اپنی فوجیں شامی سرزمین پر بھی اتار دیتا تو اسے مزید مشکلات پیش آ سکتی تھیں، کیونکہ ممکن تھا کہ وہاں پر یہ ذمہ داری ’شاید ایک دہائی مزید‘ جاری رہتی۔
امریکی افواج افغانستان اور عراق میں ایک دہائی تک جنگ میں شامل رہی ہیں۔ افغانستان میں 2001ء میں شروع ہونے والی فوجی کارروائی رواں برس یعنی 2014ء تک اپنے اختتام تک پہنچنے کی امید ہے کیونکہ طے شدہ شیڈول کے مطابق امریکہ سمیت بین الاقوامی افواج افغانستان سے رواں برس واپس چلی جانا ہیں۔
شام میں فوجی مداخلت کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں امریکی صدر کا مزید کہنا تھا، ’’اور یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ ایسی کسی کارروائی کا نتیجہ صورتحال میں بہت بہتری کی صورت میں نکلتا۔‘‘
امریکی ٹیلی وژن CBS کے لیے صدر باراک اوباما کا یہ انٹرویو ان کے سعودی عرب روانگی سے قبل ریکارڈ کیا گیا تھا۔ صدر اوباما جمعہ 28 مارچ کو سعودی دارالحکومت ریاض پہنچے تھے جہاں انہوں نے سعودی شاہ عبداللہ کے ساتھ شامی بحران کے حوالے سے پیدا شدہ صورتحال پر تفصیلی بات چیت کی۔