امریکی فاسٹ فوڈ ایشیائی شہریوں کی صحت کے لیے بڑا خطرہ
23 جولائی 2012امریکا کی یونیورسٹی آف منیسوٹا کے اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ایماء پر تیار کی جانے والی اس مطالعاتی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ امریکی فاسٹ فوڈ کے مقابلے میں ایشیائی فاسٹ فوڈ، مثال کے طور پر نوڈلز اور ابلے ہوئے یا بھاپ میں تیار کردہ آٹے کے گول تودے جو عام طور سے دم پخت گوشت کے ساتھ پیش کیے جاتے ہیں، صحت کے لیے کم نقصان دہ ہیں۔
عالمگیریت کے اس دور میں امریکی طرز کے فاسٹ فوڈ کھانوں نے مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیا میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ اس مطالعے میں سنگاپور کے 60 ہزار سے زائد چینی نسل کے باشندوں پر ریسرچ کی گئی۔
یونیورسٹی آف منیسوٹا کے ماہر اینڈریو اوڈیگارڈ کے بقول،’ بہت سی ثقافتوں میں مغربی طرز کے فاسٹ فوڈ کو اقتصادی ترقی کی علامت کے طور پر اپنایا جاتا ہے‘۔ روئٹرز کو بیان دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ثقافتی طور پر اس رجحان کی اہمیت کتنی ہی کیوں نہ ہو، صحت کے اعتبار سے یہ بہت مہنگا پڑتا ہے۔
یہ تحقیق 1990 کے عشرے پر محیط ہے۔ اس میں 45 سے 74 سال کے شہریوں سے پوچھ گچھ کی گئی۔ اس عرصے کے دوران سروے میں شریک 1,397 افراد قلب کے امراض کا شکار ہو کر موت کے منہ میں چلے گئے جبکہ 2,252 افراد میں ذیابیطس ٹائپ 2 کے عارضے نے جنم لیا۔
محققین کے مطابق ایسے افراد میں، جنہوں نے ہفتے میں دو یا دو سے زائد بار فاسٹ فوڈ کا استعمال کیا، ذیابیطس کے خطرات 27 فیصد زیادہ پائے گئے۔ ان افراد میں فاسٹ فوڈ نہ کھانے یا بہت کم کھانے والے افراد کے مقابلے میں قلب کے امراض کے سبب ہونے والی اموات کے خطرات بھی 56 فیصد زیادہ پائے گئے۔
ہفتے میں چار یا اس بھی زیادہ بار فاسٹ فوڈ استعمال کرنے والے 811 افراد میں قلب کی خرابی کے سبب ہونے والی اموات کی شرح 80 فیصد تک بڑھ گئی۔ اس ضمن میں ریسرچرز نے صحت پر منفی اثرات مرتب کرنے والے اور موت کا سبب بننے والے دیگر عوامل کا بھی جائزہ لیا، مثال کے طور پر عمر، جنس، وزن، تمباکو نوشی اور تعلیمی سطح کا بھی اندازہ لگایا گیا تاہم ان تمام عوامل سے زیادہ مضر فاسٹ فوڈ کھانے ہی ثابت ہوئے۔
اس تحقیق سے یہ بھی ثابت ہوا کہ سنگاپور میں فاسٹ فوڈ استعمال کرنے والے زیادہ تر باشندے جوان، تعلیم یافتہ اور جسمانی طور پر فعال ہیں اور ان میں تمباکو نوشی کا رجحان بھی اُن باشندوں کے مقابلے میں کم ہے جو اپنی روایتی غذا پر قائم ہیں۔
امریکی ماہر اینڈریو اوڈیگارڈ کی ٹیم کی اس تحقیق سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ مشرقی اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک میں فاسٹ فوڈ کھانے والوں کا پروفائل امریکا کے متوسط فاسٹ فوڈ صارفین سے مختلف ہے۔
بالٹی مور میں قائم جان ہوپکنز بلوم برگ اسکول آف پبلک ہیلتھ سے تعلق رکھنے والی ایک اسسٹنٹ پروفیسر سارا بلائش کا اس بارے میں کہنا ہے،’فاسٹ فوڈ تیار کرنے والی بڑی کثیرالقومی کمپنیاں امریکا سے باہر اپنی آمدنی میں تیزی سے اضافے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ ان کی نگاہیں سنگاپور جیسی ابھرتی ہوئی اقتصادی قوت پر جمی ہوئی ہیں۔ اس کے عالمگیر اثرات عوامی صحت پر بہت گہرے ثابت ہو رہے ہیں‘۔
Km/aa (Reuters)