امریکی جاسوس جوناتھن پولارڈ کی رہائی کا معاملہ
2 اپریل 2014آج کل امریکا میں اسرائیل کے لیے جاسوسی کرنے والے جوناتھن پولارڈ کی رہائی کے حوالے سے خبریں خاصی گردش کر رہی ہیں۔ امریکی صدر کی رہائش گاہ سے منگل کے روز بھی بتایا گیا کہ صدر اوباما نے پولارڈ کی رہائی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔ پولارڈ کی رہائی کے حوالے سے یہ امر اہم ہے کہ صدر رونالڈ ریگن سے لیکر اوباما سے قبل تک کے کئی سابقہ صدور نے ایسی کوششوں کو مسترد کر دیا تھا۔ صدر کلنٹن کے دور میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے پولارڈ کو رہا کرنے پر استعفیٰ دینے کا کہہ دیا تھا۔
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے پولارڈ کی رہائی کا ذکر کیا ہے اور وہ اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان جاری امن مذاکرات کے ساتھ پولارڈ کی رہائی کو نتھی کرنا چاہتے ہیں۔ کیری اس سے اسرائیل سے کچھ مراعات بھی حاصل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ کیری نے یہ ضرور واضح کیا ہے کہ ابھی تک اس بابت کوئی بات طے نہیں ہے۔ کیری کی جانب سے آج بدھ کے روز فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھ ہونے والی ملاقات کو فوراً منسوخ کرنے سے بھی آثار ظاہر ہوئے ہیں کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان مذاکراتی عمل ناکامی سے ہمکنار ہونے والا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان امریکی کوششوں سے جاری مذاکرات میں واشنگٹن حکومت کی ٹیم کے رکن ایرن مِلر کا کہنا ہے کہ مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے کے لیے پولارڈ کی رہائی کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مِلر کا یہ بھی کہنا ہے کہ بظاہر یہ امریکا کی کمزوری اور مایوسی کا عکاس بھی ہے۔ اسرائیل کئی برسوں سے پولارڈ کی رہائی کا متمنی ہے اور اُسے سن 1990 میں اسرائیلی قومیت بھی دے دی گئی تھی۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات میں ناکامی کی وجہ سے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کو جس مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے، پولارڈ کی رہائی سے وہ ختم کرنا ممکن ہو گا۔ دوسری جانب ایرن مِلر کا کہنا ہے کہ پولارڈ کی رہائی سے کچھ خاص حاصل نہیں ہو سکتا۔
جوناتھن پولارڈ تقریباً تیس برس جیل میں گزارنے کے بعد اگلے برس یعنی سن 2015 کے مہینے نومبر میں پیرول پر رہائی حاصل کر سکتا ہے۔ بشرطیکہ اُس کی درخواست منظور کر لی جاتی ہے۔ وہ آج کل امریکی ریاست شمالی کیرولینا میں درمیانے درجے کی سکیورٹی والی بٹنر جیل میں ہے اور صحت بھی اُس کی بہتر نہیں ہے۔ امریکا میں درمیانے درجے کی سکیورٹی والی جیلوں میں قیدیوں کو صبح چھ بجے اٹھا دیا جاتا ہے اور دن بھر وہ مختلف ہلکی پھلکی نوکری کرتے ہیں۔ ان جیلوں میں قیدیوں کومحدود ٹیلیفون کی سہولت بھی دی جاتی ہے۔
جرناتھن پولارڈ کی رہائی کی امریکا کے فوجی اور انٹیلیجنس حلقے مسلسل زوردار مخالفت کرتے چلے آئے ہیں۔ امریکا کے سابق وزیر دفاع ولیم کوہن کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات کے ساتھ پولارڈ کی رہائی کو نتھی کرنا کسی طور پر مناسب بات نہیں ہے۔ کوہن اُس وقت سینیٹ کی انٹیلیجنس کمیٹی کے رکن تھے جب پولارڈ کو سزا سنائی گئی تھی۔ کوہن کے مطابق مشرق وسطیٰ کے امن پلان کو پولارڈ کے انجیکشن کی ضرورت نہیں ہے مگر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اُسے تبادلے کی شے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کوہن کے مطابق امریکا اس عمل سے کیا پانا چاہتا ہے، وہ بھی واضح نہیں ہے۔ دوسری جانب گزشتہ کچھ برسوں کے دوران کئی اہم امریکی سیاستدانوں کا پولارڈ کے لیے نرم رویہ بھی سامنے آچکا ہے۔
جوناتھن پولارڈ نے امریکی نیوی میں تجزیہ کار کی ملازمت کے دوران کئی اہم اور انتہائی خفیہ دستاویزات اسمگل کی تھیں۔ان میں 1000 خفیہ پیغامات اور 800 خفیہ دستاویزات شامل تھیں۔ اسمگل کی جانے والی دستاویزات میں امریکی اسلحے، فوجی صلاحیتوں، راڈار جام کرنے کی تکنیک اور کئی عرب ملکوں میں امریکی الیکٹرانک تنصیبات کی تفصیلات بھی شامل تھیں۔ یہ تنصیبات امریکا نے سعودی عرب، اردن، مصر اور چند دوسرے عرب ملکوں میں نصب کر رکھی تھیں۔ اسرائیلی حکومت نے ان دستاویزات کے عوض 45 ہزار ڈالر ادا کرنے کے علاوہ اُس کے تین مرتبہ یورپ اور اسرائیل جانے کے اخراجات چکانے اور اُس کی بیوی کو قیمتی زیورات تحفے کے طور پر بھی دیے تھے۔ سن 1986 میں دے جانے والی سزا میں اُس وقت کے امریکی وزیر دفاع کیسپر وائن بیرگر کا بیان سن 2012 میں عام کیا گیا تھا۔ اس بیان میں وائن بیرگر کا کہنا تھا کہ پولارڈ نے امریکا کو ناقبلِ تلافی نقصان پہنچایا تھا۔