امریکی تحفظات کے باوجود پاکستان ایران گیس پائپ لائن پر کام کا افتتاح
11 مارچ 2013اس پائپ لائن کا سنگ بنیاد پاک ایران سرحدی علاقے گبد میں پیر کے روز رکھا گیا۔ اس حوالے سے منعقدہ تقریب میں دونوں ممالک کے صدور نے شرکت کی۔ امن گیس پائپ لائن منصوبے کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں ایرانی صدر نے امن پائپ لائن منصوبے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے دونوں ممالک قریب آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ عناصر پاکستان اور ایران کی ترقی کے خلاف ہیں۔ امید ہے کہ دونوں ممالک کے تعلقات پر دیگر ممالک اثر انداز نہیں ہونگے۔ محمود احمدی نژاد نے واضح کیا کہ اس گیس پائپ لائن منصوبے کا جوہری پروگرام سے کوئی تعلق نہیں۔
اس موقع پر پاکستانی صدر آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ گیس پائپ لائن کا منصوبہ پاکستان کے لیے بہت اہم ہے، ’’ہم کسی کے خلاف نہیں، سب کی مدد کرنا چاہیے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے ہمسائے تبدیل نہیں کر سکتے۔
ادھر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی ناراضی کے باوجود اس نوعیت کے منصوبے کی پاکستان کو اشد ضرورت تھی۔ دفاعی تجزیہ کار اکرام سہگل کا کہنا ہے کہ امریکا خود ایران کے ساتھ بیک ڈور ڈپلومیسی کر رہا ہے اور امید ہے کہ وہ آہستہ آہستہ اس منصوبے کو قبول کر لے گا۔ انہوں نے کہا، ’’توانائی کی کمی کی وجہ سے ہماری صنعتیں بند ہو رہی ہے، اس کی وجہ سے بیروزگاری بڑھ رہی ہے، افراط زر بڑھ رہا ہے۔ ہماری معیشت پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے اور امریکا کو پتہ ہے کہ اگر یہ سب چیزیں چلتی رہیں تو بہت بڑا بحران پیدا ہو جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ منصوبہ مکمل ہو گا۔‘‘
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے تحت پاکستان 750 ملین مکعب کیوبک فٹ یومیہ گیس ایران سے برآمد کرے گا۔1931 کلو میٹر طویل اس گیس پائپ لائن کے پاکستان میں حصے پر تکمیل پر 1.5 ارب ڈالرز لاگت آئے گی اور اس کے ذریعے 31 دسمبر 2014ء سے گیس کی فراہمی شروع ہو جائے گی۔ اس گیس پائپ لائن کا 1150کلومیٹر حصہ ایران میں بچھایا جائے گا جس میں سے تقریباً 900 کلو میٹر لائن بچھائی جا چکی ہے جبکہ پاکستان میں 781 کلو میٹر طویل پائپ لائن بچھائے جانے کا کام اب شروع ہوگا۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کا ایک پہلو اندرون ملک سیاست سے بھی جڑا ہوا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’اب چونکہ یہ (حکومت) جانے والے ہیں تو انہوں نے صرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے دو فیصلے کیے، ایک ایران کے ساتھ گیس پائپ لائن کا اور دوسرا گوادر کی بندرگاہ کا ۔۔۔ یہ دونوں فیصلے اگر ملک کے مفاد میں ہوتے تو پانچ سال پہلے کرتے کیونکہ پاکستان کو پانچ سال سے توانائی بحران کا سامنا ہے۔ لیکن انہوں نے عوام کی بے بسی اور لاچاری کا احساس نہیں کیا۔ اب چونکہ الیکشن سر پر آیا ہوا ہے انہوں نے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے یہ کیا۔‘‘
پاکستانی وزیراعظم کےمشیر برائے پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین کا کہنا ہے کہ منصوبے کی تکمیل سے پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار میں پانچ فیصد اضافہ ہوگا جبکہ اس کی تعمیر کے دوران بلوچستان میں دس ہزار افراد کو نوکریاں ملیں گی اور اس کے بعد پھر تین ہزار افراد کو مستقل ملازمت بھی میسر ہوگی جس سے ملک کی معاشی ترقی کا پہیہ تیزی سے گھومے گا۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: افسر اعوان