امریکی انتخابات میں ’روسی مداخلت‘ کا جواب دیں گے، اوباما
16 دسمبر 2016رواں برس کے صدارتی انتخابات کے حوالے سے امریکی صدر باراک اوباما نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں کہا کہ جب بھی کسی غیر ملکی حکومت کی موجوگی امریکی انتخابی عمل میں محسوس کی گئی تو اُمریکی قوم نے اُس کے خلاف ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔
اس وقت امریکی صدارتی انتخابات میں روسی صدر کے اثرانداز ہونے کا معاملہ خاصا گرم ہے۔ امریکی کانگریس کے ری پبلکن اور ڈیموکریٹک اراکین نے ان مبینہ الزامات کے حوالے سے پارلیمانی تفتیش کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ کانگریس کی جانب سے حتمی رائے اُس وقت قائم ہو گی جب پارلیمانی تفتیشی کمیٹی تمام ممکنہ پہلوؤں کا جائزہ لینے کے بعد اپنی حتمی رپورٹ پیش کرے گی۔
الیکشن میں روسی مداخلت کے مبینہ الزامات کی روسی حکومت نے واضح انداز میں تردید کی ہے۔ روسی مداخلت کے مشتبہ معاملے کے حوالے سے امریکی صدر نے نیشنل پبلک ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ کہیں یہ مداخلت کھلے انداز میں کی گئی اور کہیں اِس کا ڈھکا چھپا انداز ہے۔ اوباما نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے پر روسی صدر میرے جذبات سے پوری طرح آگاہ ہیں کیونکہ میں نے اُن سے براہ راست ٹیلی فون پر گفتگو کی ہے۔
امریکی صدر کی رہائش گاہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ بظاہر یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ روسی ہیکنگ نے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کو قوی کیا ہے اور اِس کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کی امیدوار ہیلری کلنٹن کی انتخابی مہم میں کمزوری کا عنصر نمایاں کیا گیا۔ یہ امر اہم ہے کہ الیکشن جیتنے والے ڈونلڈ ٹرمپ نے ان الزامات کو لغو قرار دیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ کا کہنا ہے کہ صرف روس کے سینیئر ترین حکومتی اہلکار ہی ایسا کرنے کے احکامات جاری کرنے کے مجاز ہیں۔ ارنسٹ کی مراد الیکشن کے دوران محسوس کی جانے والی ہیکنگ ہے۔ انہوں نے اکتوبر میں جاری کی گئی امریکی خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر یہ بات کی ہے۔
اس تناظر میں امریکی صدر کے قومی سلامتی کے نائب مشیر بن رہوڈز نے واضح انداز میں کہا کہ امریکی الیکشن میں ہیکنگ سے کی گئی مداخلت کی ذمہ داری روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر براہ راست عائد ہوتی ہے۔ رہوڈز کے مطابق پوٹن کے علم میں لائے بغیر ایسی کوئی کارروائی ممکن ہی نہیں ہو سکتی۔