امریکہ بھارت سول جوہری معاہدے کی آخری رکاوٹ دُور
2 اکتوبر 2008امریکی بھارتی جوہری معاہدے پر امریکی سینٹ میں ووٹنگ کا عمل بھی مکمل ہو گیا۔ امریکی سینٹ میں بحث کے دوران کچھ ایسے خدشات بھی بیان کئے گئے کہ مستقبل میں اگر بھات کوئی اور جوہری اسلحے کا ٹیسٹ کرنے کا پروگرام بنائے تو پھر صورت حال اور معاہدے کی ہیت کیا ہو گی۔
سینٹ میں بحث کے دوران کچھ اراکین نے تجویز کیا کہ ترمیم سے واضح کیا جائے کہ اگر بھارت کوئی جوہری اسلحے کا ٹیسٹ کرتا ہے تو اُس کے ممکنہ نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔ ترمیم کے حق میں ڈیمو کریٹ اراکین تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ووٹنگ میں ایسی کسی ترمیم کے منظور ہونے کے امکان بہت کم تھے۔
بھارت کی جانب سے یہ مؤقف رکھا گیا تھا کہ وہ ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور وہ جوہری ٹیسٹ کرنے کا حق رکھتا ہے مگر بش انتظامیہ نے واضح کیا تھا کہ اگر ایسا کیا گیا تو معاہدے کا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ امریکی سینٹ میں بھی دوران بحث یہ سننے میں آیا کہ اگر بھارت نے کوئی جوہری اسلحے کا ٹیسٹ کیا تو یہ معاہدے ختم ہو جائے گا۔
اِس منظوری کے بعد بھارت کو مغربی جوہری منڈیوں تک رسائی حاصل ہو گئی ہے۔ بھارت کی فوجی جوہری تنصیبات عالمی جوہری معائنہ کاروں کے دائرے سے باہر ہے۔ بھارت امریکہ کے درمیان طے ہونے والے سول جوہری معاہدے کے بل کو امریکی ایوان نمائندگان نے گزشتہ ویک اینڈ پر بھاری فرق سے منظور کر لیا تھا۔ امریکی ایوان نمائندگان میں اِس معاہدے کی منظوری کے حق میں دو سو اٹھانوے اور مخالفت میں ایک سو سترہ ووٹ ڈالے گئے تھے۔