امریکا عراق میں فوجی بغاوت سے باز رہے، ایران
15 جون 2014ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے اتوار کے روز عراقی میں کسی بھی غیرملکی فوجی مداخلت سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے عراق میں جاری تنازعہ اور پیچیدہ ہو جائے گا اور خطے پر اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان مرزا افکم کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب امریکی محکمہ دفاع نے عراق میں بگڑتی ہوئی صورتحال اور وہاں سنی شدت پسند گروپ اسلامک اسٹیٹ اِن عراق اینڈ شام کے عسکریت پسندوں کے ہاتھوں کئی شہروں پر قبضے کے بعد خلیج فارس میں اپنے بحری بیڑے کی تعیناتی کا اعلان کیا ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ عراق کے پاس دہشت گردی اور انتہاپسندی سے جنگ کی صلاحیت موجود ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عراق میں کسی طرح کی کوئی بھی فوجی مداخلت نہ صرف اس ملک بلکہ خطے کے مفادات کے لیے بھی نقصان دہ ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ عراقی حکومت اور عوام اس سازش سے خود ہی نمٹ لیں گے۔
واضح رہے کہ گزشتہ چند روز قبل اسلامک اسٹیٹ اِن عراق اینڈ شام کے عسکریت پسندوں نے دوسرے بڑے عراقی شہر موصل کے بعد تکِرت پر بھی قبضہ کر لیا تھا اور اب دارالحکومت بغداد سے صرف 80 کلومیٹر دوری پر اس مسلح گروہ کے جنگجوؤں اور ملکی سکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپیں ہو رہی ہیں۔
گزشتہ روز ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ ان کے خیال میں عراقی دہشت گردوں کو پسپا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اب تک ان کی جانب سے کسی ہسمایہ ملک سے مدد کی اپیل نہیں کی گئی ہے۔ ان کا تاہم یہ بھی کہنا تھا کہ اگر عراقی حکومت نے درخواست کی تو ایران بین الاقوامی قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے بغداد حکومت کی امداد کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر واشنگٹن حکومت عراق میں شدت پسند مسلح جنگجوؤں کے خاتمے کے لیے اقدامات کرتی ہے، تو ایسی صورت میں ایران امریکا کے ساتھ تعاون پر تیار ہو گا۔
دوسری جانب ہفتے کو پینٹاگون نے درجنوں جنگی ہوائی جہازوں کے حامل بحری بیڑے یو ایس ایس جارج ایچ ڈبلیو بش کو خلیج فارس پہنچنے کا حکم دے دیا ہے۔ اس جہاز کو خلیج فارس میں تعینات کرنے کا اعلان امریکی وزیردفاع چک ہیگل کی جانب سے کیا گیا۔ واضح رہے کہ امریکی حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ عراق میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو فضائی کارروائیوں کے ذریعے نشانہ بنائے۔ اس سے قبل امریکی صدر اوباما نے کہا تھا کہ امریکا عراق میں اپنی فوجیں نہیں بھیجے گا، تاہم اس کے علاوہ ’تمام آپشنز‘ پر غور کیا جا رہا ہے۔
ادھر عراق میں بھی سکیورٹی فورسز ان شدت پسندوں کے خلاف جوابی کارروائیوں کا آغاز کر چکی ہیں جب کہ شیعہ رہنما آیت اللہ سیستانی کی عوام سے اپیل کے بعد کہ وہ ملک کے دفاع کے لیے ہتھیار اٹھا لیں، سینکڑوں رضاکار بھی شدت پسندوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔