1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا بستیوں کی تعمیر کو غیر قانونی سمجھتا ہے، جان کیری

عدنان اسحاق13 اگست 2013

اسرائیل اور فلسطین کے مابین امن مذاکرات کا دوسرا دور بدھ کے روز سے یروشلم میں طے ہے۔ لیکن اس دوران اسرائیل نے مزید یہودی بستیاں تعمیر کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس اقدام پر فلسطین اور امریکا نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19OdR
تصویر: Getty Images

مشرقی وسطٰی امن مذاکرات کی بحالی کی راہ میں حائل ایک بڑی رکاوٹ یہودی بستیوں کی تعمیر و توسیع کے منصوبے رہے ہیں۔ اب کل بدھ سے فریقن کے مابین بات چیت کا دوسرا دور شروع ہونا ہے تاہم اس دوران یروشلم کی شہری انتظامیہ نے مزید 942 مکانات تعمیر کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ تین سال کے تعطّل کے بعد اسرائیلی اور فلسطینی مذاکرات کاروں کی دو ہفتے قبل واشنگٹن میں ملاقات ہوئی تھی۔

امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے اس اعلان پر کہا کہ سرحدوں اور سلامتی کے معاملات طے کر لیے جائیں تو یہودی بستیوں کی تعمیر کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ اس سے جو پیغام پہنچتا ہے وہ یہ کہ فریقین کو مذاکرات کی میز پر واپس آنا چاہیے اور جلد از جلد واپس آنا چاہیے‘‘۔

USA John Kerry Ankunft Westjordanland
تصویر: Reuters

جان کیری کی سفارتی کوششوں کی وجہ سے ہی اسرائیل اور فلسطین مذاکرات کی بحالی پر راضی ہوئے تھے۔ اتوار کے روز ہی اسرائیلی حکومت نے مشرقی یروشلم اور غرب اردن میں ایک ہزار مکانات تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی۔کولمبیا کے اپنے دورے کے دوران کیری کا مزید کہنا تھا کہ انہیں اس بات کی توقع تھی کہ اسرائیل ایک ہزار گھروں کو تعمیر کرنے کی اجازت دے گا۔

اس حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا،’’امریکا تمام بستیوں کو غیر قانونی سمجھتا ہے۔ یہ امریکا کی پالیسی ہے اور ہم نے اپنا یہ موقف واضح طور پر اپنے اسرائیلی دوستوں تک پہنچایا ہے۔ ہم فلسطینیوں کے ساتھ مل کر بھی کام کر رہے ہیں اور کوشش کر رہے ہیں کہ سب کو مستقبل کی صورتحال کے بارے میں سمجھایا جا سکے‘‘۔

فلسطینی مذاکرات کار ڈاکٹر محمد اشتیہ کے بقول اسرائیل کی جانب سے یہ قدم مذاکرات سے فرار ہونے کا ایک انداز ہے۔ ان کے بقول یہ واضح ہو گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت تعمیرات میں توسیع کرتے ہوئے امریکا اور عالمی برادری کی جانب سے مذاکرات کے تعطّل کو ختم کرنے کی کوششوں کو دانستہ طور پر برباد کرنا چاہتی ہے۔ اس سے قبل جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے تل ابیب میں کہا تھا کہ ان کے خیال میں مشرق وسطٰی امن مذاکرات ایک فیصلہ کن مرحلے پر پہنچ چکے ہیں۔’’ ہمیں کسی بھی صورت میں میدان اُن قوتوں کے لیے خالی نہیں چھوڑنا چاہیے، جنہیں براہ راست بات چیت میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ فلسطین اور اسرائیل کے مابین براہ راست مذاکرات ہوں‘‘۔

John Kerry und Benjamin Netanjahu
تصویر: Reuters

ویسٹر ویلے نے مزید کہا کہ فریقن کے مابین پل بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس دوران اسرائیلی 104 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کر چکا ہے۔ ان میں سے26 کو فریقین کے مابین بات چیت شروع ہونے سے قبل رہا کیا جانا ہے تاہم ابھی تک رہائی کے حوالے سے وقت کا تعین نہیں کیا جا سکا ہے۔ دوسری جانب اسرائیلی میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے حلقے فلسطینی قیدیوں کے رہائی کے حکومتی اعلان پر شدید برہم ہیں۔