1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امريکا اور چين کے درميان اعلیٰ سطحی مذاکرات کا آغاز

عاصم سليم9 جولائی 2014

چين اور امريکا کے مابين اعلیٰ سطحی سالانہ مذاکرات کے آغاز پر چينی صدر شی جن پنگ نے دنيا کی دو سب سے بڑی معيشتوں پر زور ديا ہے کہ پرانے اختلافات کو پيچھے رکھتے ہوئے تصادم يا ٹکراؤ کے طريقہ کار کو ترک کر ديا جانا چاہيے۔

https://p.dw.com/p/1CYUC
تصویر: Reuters

چينی دارالحکومت بيجنگ ميں بدھ نو جولائی سے امريکا اور چين کے مابين دو روزہ مذاکرات کا آغاز ہو چکا ہے۔ چھٹے ’اسٹريٹيجک اينڈ اکنامک ڈائيلاگ‘ کا افتتاح کرتے ہوئے چينی صدر شی جن پنگ نے کہا کہ دونوں ملکوں کی تاريخ اور ثقافت ميں واضح فرق کو مد نظر رکھتے ہوئے يہ ايک فطری عمل ہے کہ کئی معاملات ميں امريکا اور چين کے مؤقف يکساں نہ ہوں يا کبھی کبھار ان ميں ٹکراؤ بھی ہو۔ انہوں نے مزيد کہا، ’’اسی ليے تعاون اور بات چيت لازمی ہيں۔‘‘

چينی صدر نے اپنی تقرير کے دوران يہ بھی کہا کہ دونوں ممالک کے مفادات کا پہلے کے مقابلے ميں اب ايک دوسرے پر کافی دارومدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ تعاون سے دونوں ہی کو فائدہ پہنچے گا اور تصادم کی صورت ميں دونوں ہی کا نقصان ہو گا۔ شی جن پنگ کے بقول واشنگٹن اور بيجنگ کے درميان تصادم نہ صرف امريکا و چين بلکہ عالمی سطح پر تباہی کا پيغام لا سکتا ہے اور اسی ليے پيسيفک کے خطے کی قوتوں کو تصادم کے روايتی طريقہ کار ترک کرنے ہوں گے۔

امريکی وزير خارجہ جان کيری
امريکی وزير خارجہ جان کيریتصویر: Reuters

ان دو روزہ مذاکرات ميں امريکی وفد کی سربراہی وزير خارجہ جان کيری کر رہے ہيں جبکہ وزير خزانہ جيک ليو بھی ان کے ہمراہ ہيں۔ کيری نے اس بات پر اتفاق کيا کہ امريکا اور چين کی ترقی ميں ايک دوسرے کا کردار اہم ہے۔ اس موقع پر کيری نے مزيد کہا، ’’امريکا چين کو روکنا نہيں چاہتا، ہم پر امن، مستحکم اور خوشحال چين کے عالمی سطح پر آگے بڑھنے کا خير مقدم کرتے ہيں۔‘‘

امريکا اور چين کے درميان يہ مذاکرات ايک ايسے موقع پر ہو رہے ہيں، جب چين کے پڑوسی ممالک نے متنازعہ سمندری علاقوں کی نگرانی تيز کر دی ہے، جس کے نتيجے ميں تصادم کے خطرات بھی بڑھ گئے ہيں۔ يہ امر اہم ہے کہ سمندری حدود کی ملکيت کے حوالے سے جاری تنازعے کے سبب چين کے امريکا سميت خطے کے کئی ديگر ممالک کے ساتھ بھی روابط سرد مہری کا شکار ہيں۔ اگرچہ بيجنگ ميں بات چيت کے آغاز پر چينی صدر نے اس حوالے سے کوئی بات نہيں کی تاہم ان کا يہ ضرور کہنا تھا کہ وہ اپنے ہمسايہ ممالک اور ديگر رياستوں کے ساتھ دوستانہ روبط کے خواہاں ہيں۔

چھٹے ’اسٹريٹيجک اينڈ اکنامک ڈائيلاگ‘ ميں سمندری حدود کی ملکيت سے متعلق تنازعے کے علاوہ، سائبر سکيورٹی اور شمالی کوريا کے ايٹمی پروگرام سے منسلک مسائل بھی زير بحث آئيں گے جبکہ ديگر موضوعات ميں موسمياتی تبديلياں اور جنگلی حيات شامل ہيں۔

رواں برس امريکا اور چين کے مابين سرکاری سطح کے باہمی تعلقات کو پينتيس برس مکمل ہو رہے ہيں۔ 2013ء ميں چين اور امريکا کے مابين باہمی تجارت کا حجم 520 بلين ڈالر تھا۔