امام بارگاہ پر حملہ داعش نے نہیں کیا، بنگلہ دیش
25 اکتوبر 2015بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکا میں واقع ایک مرکزی امام بارگاہ حسینی دالان پر حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرنے کا اعلان کیا تھا۔ قبل ازیں داعش ہی نے بنگلہ دیش میں دو غیرملکیوں کے قتل کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ بنگلہ دیش حکومت نے آج کہا ہے کہ ان حملوں کے پیچھے داعش نہیں بلکہ وہ مقامی عسکری گروپ ہیں، جن پر پابندی عائد کی جا چکی ہے اور ان کا مقصد عوام کو منقسم اور ملک کو غیر مستحکم بنانا ہے۔ بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزمان خان کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ایک مرتبہ پھر میں یہ بات دہرا رہا ہوں کہ ملک میں داعش کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘‘
تجزیہ کاروں کے مطابق بنگلہ دیش میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی سے متعلق خدشات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں ایسے چار بلاگرز کو بھی ہلاک کر دیا گیا ہے، جو لادین تھے۔ تاہم ان بلاگرز کی ہلاکت کی ذمہ داری بنگلہ دیش کے ایک مقامی گروپ ’انصاراللہ بنگلہ‘ نے قبول کی تھی۔ ابھی گزشتہ ہفتے ہی اس گروپ کی طرف سے میڈیا کو ایک نئی ای میل بھیجی گئی ہے، جس میں ایسے بلاگرز کو مزید دھمکیاں دی گئی ہیں۔
ہفتے کو طلوع آفتاب سے پہلے متعدد نامعلوم حملہ آوروں نے دیسی ساختہ بموں کے ذریعے دارالحکومت ڈھاکا میں واقع ایک مرکزی امام بارگاہ میں جمع شیعہ عزاداروں کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے کے نتیجے میں ایک چودہ سالہ لڑکا ہلاک جبکہ ایک سو سے زائد افراد زخمی ہو گئے تھے۔ گزشتہ چار سو سالہ تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا تھا کہ ڈھاکا میں عاشورہ کے دوران کسی شیعہ اجتماع کو نشانہ بنایا گیا ہو۔
بنگلہ دیش میں شیعہ اقلیت میں ہیں لیکن عام طور پر ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ انہیں مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہو۔
جہادی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے انٹیلی جنس گروپ ’سائٹ‘ نے اس حملے کے چند گھنٹوں بعد ہی اس کی تصدیق کر دی تھی کہ داعش نے اپنی ویب سائٹ پر پیغام جاری کرتے ہوئے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ تاہم داعش کی اس بیان کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں ہو سکی ہے۔