النصرہ فرنٹ کا تعلق عراقی القاعدہ سے ہے: ابو بکر البغدادی
9 اپریل 2013دریں اثناء اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ گزشتہ دو برسوں سے جاری صدر بشار الاسد کے خلاف مسلح بغاوت کے دوران شام میں ہر پانچ اسکول میں سے ایک کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
اسلامک اسٹیٹ آف عراق (ISI) کے سربراہ ابو بکر البغدادی نے ایک ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے گئے اپنے آڈیو پیغام میں اس امر کا اعتراف کیا ہے کہ شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والا اہم جہادی گروپ النصرہ فرنٹ القاعدہ نیٹ ورک کا حصہ ہے۔ اپنے پیغام میں انہوں نے کہا،’ اب وقت آ گیا ہے اس پوشیدہ حقیقت کو دنیا کے سامنے لانے کا کہ النصرہ فرنٹ اسلامی ریاست عراق کی ایک شاخ ہے‘۔
ابو بکر البغدادی کے مطابق القاعدہ نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے مختلف گروپوں کے ایک اتحاد کو ’اسلامی اسٹیٹ اِن عراق‘ کا نام دیا جائے گا۔ مزید یہ کہ البغدادی نے النصرہ فرنٹ کے ایک چوٹی کے لیڈر کو اپنے مجاہدین میں سے ایک قرار دیا۔ انہوں نے کہا،’ ہم نے ابو محمد الجولانی اور دیگر مجاہدین کو عراق سے شام بھیجنے کے لیے چنا، باقاعدہ منصوبہ اور پالیسی بھی تیار کی ہے اور ہم نے اپنے ان جنگجوؤں کو پیسے اور افرادی قوت بھی فراہم کی ہے‘۔ ابوبکر البغدادی کا کہنا ہے کہ القاعدہ سے منسلک یہ جوائنٹ گروپ دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش رکھتا ہے بشرطیکہ، ان کے بقول’ ان ممالک اور وہاں کے باشندے اللہ کی حکمرانی کے پابند ہوں‘۔
البغدادی کے ان بیانات سے محض ایک روز قبل شام کے دارالحکومت دمشق کے قلب میں ایک کار بم حملہ ہوا، جس میں 15 افراد ہلاک اور 146 دیگر زخمی ہو ئے۔ قبل ازیں القاعدہ کے عالمی سربراہ ایمن الظواہری نے آن لائن پوسٹ کیے جانے والے اپنے ایک آڈیو پیغام میں اپنے باغیوں پر زور دیا تھا کہ وہ شام میں ایک اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جنگ کرتے رہیں۔ الظواہری نے کہا تھا،’ اللہ کے نام پر اور شریعہ کے نظام کے نفاذ کے لیے جو کچھ کر سکتے ہو کرو‘۔
اُدھر امدادی گروپ’سیو دی چلڈرن‘ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین پر زور دیا ہے کہ بحران زدہ ملک شام کے بچوں کے لیے امدادی کارروائیوں میں اضافہ کریں۔ اس گروپ کے مطابق شام میں قریب 2 ملین بچوں کو امداد کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں امدادی گروپ’سیو دی چلڈرن‘ نے گزشتہ روز 15 رکنی کونسل کے سامنے ایک رپورٹ پیش کی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ شام کے بحران کے آغار ہی سے جنگ کے متاثرہ بچوں کو بھلایا جاتا رہا ہے۔ ان بچوں کو موت اور ذہنی صدموں سے گزرنا پڑ رہا ہے، انہیں جنسی زیادتیوں، اذیت رسانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے، اکثر انہیں گولی سے اڑا دیا جاتا ہے۔ اور یہ بنیادی امداد سے محروم ہیں۔ شام میں بچوں کو مختلف مسلح گروپوں میں شامل کیا جا رہا ہے۔ 8 سال سے کم عمر بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیے جانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ امدادی گروپ’سیو دی چلڈرن‘ کی صدر کیرولائن مائلز نے روئٹرز کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ شام میں زیادہ تر بچے گھروں میں بغیر کسی پیشہ ورانہ طبی امداد کے پیدا ہو رہے ہیں۔ ان کے گھر والوں کو غذا کی قلت کا سامنا ہے۔ عالمی براداری کی طرف سے بچوں کی امداد کے لیے کیے گئے وعدے پورے ہونا دور کی بات لگتی ہے۔ اُدھر یونیسیف نے کہا ہے کہ عالمی برادری کے ناکافی حمایت کے باعث شام کی نوجوان نسل کا مستقبل ’گمشدہ نسل‘ کا سا دکھائی دے رہا ہے۔
km/ia (AFP)