الجزائر میں بھی حکومت مخالف مظاہرے
12 فروری 2011الجزائر میں پہلے سے ہی مصر، تیونس اور خطے کے دیگر ممالک کی طرح حکومت کی تبدیلی کے لیے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ خبررساں ادارے اے پی نے اس احتجاج کے منتظمین کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہفتہ کے مظاہروں میں شریک افراد کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ وہ یہ نعرے لگا رہے ہیں، ’پولیس اسٹیٹ نہیں چلے گی‘، ’گو بوتفليقہ گو‘۔
پولیس نے جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر رکھی ہے اور مظاہرین کو شہر کے مرکز تک جانے سے روکا جا رہا ہے۔ وہاں تعینات سکیورٹی اہلکاروں کی تعداد تیس ہزار بتائی جا رہی ہے۔
خیال رہے کہ الجزائر میں سخت سکیورٹی کی تعیناتی معمول کی بات ہے، تاہم جمہوریت نوازوں کی جانب سے ہفتہ کے مارچ کے اعلان کے بعد دارالحکومت الجزائر میں قدرے زیادہ سکیورٹی تعینات کی گئی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ الجزائر کے صدر عبد العزيز بوتفليقہ کے چند حامی بھی سڑکوں پر نکلے ہوئے ہیں۔ مظاہروں میں شریک اپوزیشن پارٹی ریلی فار کلچر اینڈ ڈیموکریسی (آر سی ڈی) کے ایک ترجمان نے خبررساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں کہا، ’ہم مارچ کے لیے تیار ہیں۔ الجزائر میں جمہوریت کے لیے یہ ایک اہم دِن ثابت ہو گا۔‘
وہاں ہفتہ کے اس احتجاج کے دوران مظاہرین کا پولیس کے ساتھ تصادم ہوا ہے۔ خبررساں ادارے اے ایف پی نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمہوریت نواز کارکنوں کی جانب سے اعلان کردہ مارچ سے قبل دارالحکومت الجزائر میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں اور متعدد افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
حکومت نے ایسی ریلیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے، جو دراصل 1992ء میں ہنگامی حالت کے نفاذ سے چلی آ رہی ہے۔ تاہم رواں ماہ وہاں صدر عبد العزيز بوتفليقہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ایمرجنسی جلد ہی اٹھا لی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ دارالحکومت کے علاوہ ہر جگہ مظاہروں کی اجازت دے دی جائے گی۔
الجزائر میں ہفتے کو بڑے پیمانے پر مظاہرے کا انعقاد مصر میں حسنی مبارک کی جانب سے صدارت کا عہدہ چھوڑنے کے محض ایک دِن بعد کیا جا رہا ہے۔ حسنی مبارک مصر میں تین دہائیوں سے اقتدار سنبھالے ہوئے تھے، تاہم عوام کی جانب سے اٹھارہ دِن تک جاری رہنے والے احتجاج کے باعث منصبِ صدارت چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔
الجزائر کے دارالحکومت میں جمعہ کو ہزاروں افراد نے مصر میں حسنی مبارک کے مستعفی ہونے کا جشن منانے کے لئے اکٹھے ہونے کی کوشش کی تو اس وقت بھی سکیورٹی فورسز نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا تھا۔
رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے
ادارت: کشور مصطفیٰ