اقوام متحدہ میں فلسطین کی رکنیت کی کوشش
27 ستمبر 2012فلسطینی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کی جانب سے اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت حاصل کرنے کی کوشش گزشتہ برس ناکام ہو چکی ہے۔ اب وہ چاہتے ہیں کہ کم از کم فلسطین کو غیر مستقل رکن ریاست کا درجہ دیا جائے۔ آج جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں وہ رکن ممالک کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ آج ہی اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو بھی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ دونوں رہنماؤں کے خطاب کا بڑی بے چینی سے انتظار کیا جا رہا ہے۔
فلسطینی مذاکرات کار صائب ایریکات کہتے ہیں کہ اگر فلسطین کو غیر مستقل رکنیت دینے کے حق میں فیصلہ ہو جاتا ہے تو اس سال کے آخر تک یہ منزل حاصل کر لی جائے گی۔ گزشتہ برس امریکا کی جانب سے ویٹو کی دھمکی کے بعد ہی واضح ہو گیا تھا کہ فلسطین کو مکمل رکنیت نہیں مل پائے گی۔ اُس موقع پر فلسیطنی وزیر خارجہ ریاض المالکی کا کہنا تھا ’’بیش بہا قربانیوں، کوششوں اور فلسطینی عوام کی بھرپور جدوجہد کی وجہ سے ہم کسی بھی صورت میں اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت سے کم کچھ بھی قبول نہیں کریں گے‘‘۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ فلسطینی اپنا نیا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں کیونکہ غیر مستقل رکنیت کے حصول کا طریقہ کار قدرے مختلف ہے۔ اس کے لیے انہیں سلامتی کونسل کی منظوری کی ضرورت نہیں بلکہ جنرل اسمبلی میں اکثریت کی ضرورت ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فلسطینی انتظامیہ کو اس سلسلے میں 193 میں سے 120 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔
بہرحال یہ قدم بھی خطرے سے خالی نہیں ہے۔ اسے اسرائیل کے ساتھ ایک نیا محاذ کھولنے کے طور پر بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ یروشلم کا موقف ہے کہ فلسطینی انتظامیہ کی جانب سے سفارتی سطح پر خود کو تسلیم کروانے کی کوششیں یکطرفہ ہیں اور اس سے مشرق وسطی تنازعے کو حل کرنے میں مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ابھی تک اس حوالے سے اقوام متحدہ کی تمام قراردادوں سے لے کر اوسلو میں طے پانے والے معاہدے تک کی بنیاد اس پر ہے کہ مشرق وسطی تنازعے کو حل کرنے کے سلسلے میں کی جانے والی تمام تر کوششیں فریقین کے مابین براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہی کی جائے گی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ محمود عباس کا یہ اقدام براہ راست مذاکرات کے اصول کی نفی کرتا ہے۔
اقوام متحدہ کے اجلاس عامہ کی آج جمعرات کے روز کی کارروائی کے دوران محمود عباس غیر مستقل رکنیت کے حصول کی بات کریں گے اور جس کے بعد اس معاملے پر بحث کی جائے گی۔ اسے محمود عباس کی جانب سے مشرق وسطی تنازعہ کو ایک مرتبہ پھر عالمی منظر نامے پر اجاگر کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ عرب ممالک میں آنے والے انقلاب اور موجودہ صورتحال کے بعد یہ معاملہ پس پردہ چلا گیا ہے۔
ai / sks ( Reuters,AFP)