افغانستان کی تعمیر نو اور بین الاقوامی ڈونرز کانفرس
2 اکتوبر 2016امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی میزبانی میں افغانستان کے لیے ڈونرز کانفرنس کا انعقاد برسلز میں کیا جا رہا ہے۔ اس دو روزہ کانفرنس میں افغان صدر اشرف غنی کو عالمی طاقتوں کے نمائندوں سے ملاقات کا موقع حاصل ہو گا اور مالی امداد کے وعدوں کے لیے وہ اپنے ملک کی ترجیحات اور سابقہ کانفرنس میں طے پانے والے ٹارگٹس کا کس حد تک حصول ہو سکا ہے، اِن پر وہ روشنی ڈالیں گے۔ امید کی جا رہی ہے کہ ستر مختلف ممالک اور پچیس کے قریب بین الاقوامی امدادی ادارے کانفرنس کے نمائندے اور مندوب اِس کانفرنس میں شریک ہو رہے ہیں۔
چار اور پانچ اکتوبر کی کانفرنس میں افغان صدر یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹُسک کے ساتھ بھی ملاقات کریں گے۔ اِس کانفرنس کے حوالے سے یہ حقیقت بھی اہم ہے کہ عالمی طاقتیں اور بین الاقوامی امداد دینے والے ادارے اِس وقت شام کے مسلح تنازعے سے شدید طور اپ سیٹ ہیں۔ اس کے علاوہ عراق کے اندر پیداشدہ اندرونی خلفشار بھی پریشان کن ہے۔ سفارتکاروں کا خیال ہے کہ اسٹرٹیجیک ٹارگٹس کے حصول کے لیے کابل حکومت کی بین الاقوامی سطح پر مالی معاونت کا سلسلہ جاری رکھنا ضروری ہے۔
افغانستان کی تعمیر نو کے لیے برسلز کانفرنس سن 2012 کی ٹوکیو اور سن 2016 کی لندن کانفرنسوں کا تسلسل ہے۔ لندن کانفرنس میں عالمی طاقتوں نے افغانستان کی مالی امداد اور حکومتی استحکام کے لیے چار بلین ڈالر کے وعدے کیے تھے۔ اب تک برسلز کانفرنس کے لیے تقریباً تین بلین ڈالر کے وعدے سامنے آئے ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ کانفرنس کے شروع ہونے تک چاربلین کا ہدف حاصل ہو سکتا ہے۔ عالمی طاقتیں افغانستان میں طالبان جنگ جووں کی بڑھتی سرگرمیوں اور کابل حکومت کی مختلف صوبوں کے اضلاع میں مسلسل کم زور ہوتے اختیار پر بھی گہری تشویش رکھتی ہے۔
مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے افغانستان کی موجودہ صورت حال کے تناظر میں اپنے موجودہ فوجی حجم کو برقرار رکھنے کا فیصلہ پولینڈ میں ہونے والی سمٹ میں کیا تھا۔ افغان صدر اشرف غنی نے برسلز کانفرنس کے حوالے سے کہا ہے کہ اُن کی حکومت نے برسلز کانفرنس کو بہت سنجیدہ لے رکھا ہے ہے اور کانفرنس کے بعد پوری افغان قوم اور حکومت مشترکہ طور پر طے شدہ اہداف کے حصول کے لیے جدوجہد میں مصروف ہو جائے گی۔