افغانستان: پاکستانی قونصلیٹ پر حملہ
13 جنوری 2016افغان حکام کے مطابق ایک خودکش حملہ آور نے مقامی وقت کے مطابق بدھ تیرہ جنوری کی صبح نو بجے پاکستانی قونصلیٹ کے قریب خود کو بم دھماکے سے اڑا دیا، جس کے بعد افغان سکیورٹی فورسز کا دیگر مسلح افراد کے ساتھ فائرنگ کا تبادلہ شروع ہو گیا۔ حکام کے مطابق ان مسلح حملہ آوروں کو پاکستانی قونصلیٹ کے قریب ہی واقع ایک گھر تک محدود کر دیا گیا ہے۔
یہ حملہ ایک ایسے وقت پر ہوا ہے جب افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ ان مذاکرات کی بحالی کے لیے پاکستان، امریکا اور چین کوشاں ہیں۔ دوسری طرف جنوبی ایشیا کے دو روایتی حریفوں اور جوہری طاقتوں پاکستان اور بھارت کے درمیان بھی طویل عرصے سے تعطل کے شکار مذاکرات کا سلسلہ شروع ہونے کو ہے۔ اسی طرز کے ایک حملے کا نشانہ گزشتہ ہفتے افغانستان کے شمالی شہر مزار شریف میں قائم بھارتی قونصلیٹ کو بھی بنایا گیا تھا۔
خبر رساں ادارے روئٹرز نے عینی شاہدین کے حوالے سے بتایا ہے کہ جلال آباد میں جس جگہ پاکستانی قونصلیٹ موجود ہے، اس علاقے سے شدید فائرنگ اور دھماکوں کی آوازیں سنی جا سکتی تھیں جبکہ نزدیک ہی واقع ایک پرائیویٹ اسکول سے بچوں کو نکال لیا گیا۔ جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق دھماکے کے نتیجے میں اس پرائیویٹ اسکول کے تین بچے بھی زخمی ہوئے۔
جلال آباد کی صوبائی حکومت کے ترجمان عبداللہ خوگیانی کے مطابق خودکش حملہ آور نے ان لوگوں کی ایک قطار میں شامل ہونے کی کوشش کی، جو ویزے کے حصول کے لیے افغان شہریوں نے پاکستانی قونصلیٹ کے باہر بنائی ہوئی تھی۔ جب اس حملہ آور کو عمارت میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی گئی تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
کابل میں ملکی وزارت داخلہ کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اس دھماکے کے نتیجے میں دو پولیس اہلکار ہلاک ہوئے۔ اس بیان کے مطابق دو حملہ آور نزدیک ہی واقع ایک حکومتی گیسٹ ہاؤس میں گھس گئے جو خالی تھا۔ سکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرا ہوا ہے اور حملہ آوروں کے ’خاتمے‘ کی کوشش کر رہی ہیں۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے مقامی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ دھماکے کے نتیجے میں کم از کم چار پولیس اہلکار جبکہ ایک عام شہری ہلاک ہوا۔ ڈی پی اے نے ایک مقامی باشندے محمد عمران کے حوالے سے بتایا کہ جہاں یہ واقعہ پیش آیا، اس علاقے میں صبح کے وقت ٹریفک کا بہت زیادہ رش ہوتا ہے، اس لیے خدشہ ہے کہ ہلاک یا زخمیوں کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے۔
ابھی تک کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔