افغانستان میں ہر دوسرے روز ایک بچہ بارودی سرنگوں کا نشانہ
1 جون 2024افغان شہریوں کے لیے سن 2021 میں افغانستان سے غیر ملکی افواج کی واپسی اور طالبان کے کابل میں اقتدار میں آنے کے بعد کھیتوں، اسکولوں اور سڑکوں پر واپس آنا ممکن ہوا۔ لیکن نقل و حرکت کی اس آزادی کے ساتھ ساتھ افغان شہریوں کو 40 سال کے لگاتار تنازعات کے بعد پیچھے رہ جانے والی بارودی سرنگوں اور اسلحے سے لاحق خطرات کا بھی سامنا ہے۔
میانمار میں بارودی سرنگوں سے ہلاکتوں میں تین گنا اضافہ
یمن میں بچھی بارودی سرنگیں، ہر قدم پر موت
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری 2023 سے لے کر رواں سال اپریل تک اس طرح کے گولہ بارود سے تقریباﹰ 900 افراد ہلاک یا زخمی ہوئے، جن میں زیادہ تر بچے تھے۔
ایک ٹینک شکن بارودی سرنگ 1979 سے 1989 تک سوویت حملے کے بعد سے صوبائی دارالحکومت غزنی کے جنوب میں واقع قچ قلعہ نامی گاؤں سے محض 100 میٹر کے فاصلے پر نصب تھی۔
برطانوی تنظیم ہیلو ٹرسٹ سے تعلق رکھنے والے بارودی سرنگیں صاف کرنے والے ماہرین نے اس کا سراغ لگایا اور پھر اسے محفوظ انداز سے دھماکے سے اڑا دیا۔ اس دھماکے کی گونج تین کلومیٹر دور تک سنی گئی۔
بارودی سرنگ کو تباہ کرنے والے کارکنوں کی جانب سے اسے وہاں سے ہٹائے جانے سے پہلے اس نے زور دے کر کہا کہ یہ بارودی سرنگ ''زیادہ خطرناک نہیں ہو سکتی کیونکہ یہ اتنے سالوں تک پھٹی نہیں تھی۔‘‘
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن یو این اے ایم اے کے 'مائن ایکشن سیکشن‘ کے سربراہ نک پونڈ کے مطابق طالبان حکومت، ''اس ملک سے نصب بارودی سرنگوں کے خاتمے کی بہت بڑی حامی ہے اور جہاں تک ممکن ہو سکے جلد سے جلد ان کا خاتمہ چاہتی ہے۔‘‘
افغانستان میں 1988ء کے اوائل میں بارودی سرنگیں صاف کرنے کے عمل کا آغاز ہوا تھا لیکن دہائیوں کی جنگوں کے بعد ملک بارودی سرنگوں اور دیگر اسلحے سے دوبارہ متاثر ہوا۔
پونڈ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ اس وقت یہ اندازہ لگانا تقریباﹰ ناممکن ہے کہ ملک میں کتنی بارودی سرنگیں نصب ہیں۔
جنوری 2023 سے اب تک پیچھے چھوڑ دیے گئے ہتھیاروں سے ہلاک یا زخمی ہونے والوں میں 82 فیصد بچے تھے اور ایسے نصف واقعات بچوں سے متعلق تھے۔ نوکوردک گاؤں میں اپریل کے اواخر میں دو بچوں کی اسی سبب موت ہوئی۔
اپنے چھوٹے بچوں میں گھری، شاوو نے بتایا کہ کس طرح ان کا 14 سالہ بیٹا ایسی ہی ایک بارودی سرنگ کا نشانہ بن گیا: ''اس نے اس پر ایک پتھر پھینکا، پھر دوسری بار اور تیسری بار وہ بارودی سرنگ پھٹ گئی۔‘‘ لڑکے کی موقع ہی موت ہو گئی۔ اسی دھماکے میں جاوید کے دوست سخی داد کی بھی ہلاکت ہوئی۔ اس کی عمر بھی 14 برس تھی۔
سخی داد کے 18 سالہ بھائی محمد ذاکر نے کہا، ''لوگوں سے یہ تو سنا تھا کہ یہاں آس پاس دھماکہ خیز مواد نصب ہے، لیکن گاؤں میں اس سے پہلے ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔‘‘
رنجیدہ آنکھوں کے ساتھ محمد ذاکر کا مزید کہنا تھا، '' کوئی بھی بچوں کو اس خطرے سے خبردار کرنے کے لیے گاؤں نہیں آیا تھا۔‘‘
برطانوی تنظیم ہیلو ٹرسٹ کے دھماکہ خیز ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانے والے ماہر زابتو مایار کے مطابق فنڈز کی کمی ان کے کام کے لیے ایک بڑا چیلنج تھا۔ لہٰذا بارودی سرنگیں صاف کرنے والے ماہرین کو عطیات پر انحصار کرنا پڑا۔
پونڈ کے مطابق، ''2011 کے آس پاس بارودی سرنگیں صاف کرنے والے ماہرین کی تعداد 15,500 کے قریب تھی۔ اس وقت یہ تعداد 3000 ہے۔‘‘
دیگر عالمی تنازعات کے سبب ان کے لیے فنڈنگ متاثر ہوئی ہے جبکہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے سبب بھی ڈونرز واپس چلے گئے ہیں کیونکہ ان کی حکومت کو کسی دوسرے ملک نے تسلیم نہیں کیا ہے۔
لیکن دیہہ قاضی نامی بستی کے ایک اسکول کے ہیڈ ماسٹر محمد حسن اب بھی بارودی سرنگیں صاف کرنے والے ان کارکنوں سے امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہیں۔
محمد حسن کے مطابق، ''یہاں تک کہ اسکول کا صحن بھی بچوں کے لیے خطرناک ہے کیونکہ اسے بارودی سرنگوں سے پاک نہیں کیا گیا ہے۔ ہم یہاں درخت بھی نہیں لگا سکتے۔ اگر ہم کھدائی کرتے ہیں، اگر ہم یہاں کام کرنے کے لیے ٹریکٹر یا مشینیں لاتے ہیں، تو یہ واقعی خطرناک ہے۔‘‘
یہاں بچوں کو بارودی سرنگوں اور دیگر اسلحہ بارود سے بچاؤ کے لیے آگاہی بھی فراہم کی جاتی ہے۔
12 سالہ جمیل حسن کے مطابق، ''چھ ماہ قبل اپنے دوستوں کے ساتھ چہل قدمی کے دوران ہم نے ایک راکٹ دیکھا اور ہم نے فوری طور پر گاؤں کے عمائدین کو بتایا اور انہوں نے کان کنوں کو اطلاع دی۔‘‘
ا ب ا/ا ا (اے ایف پی)