افغان حکومت شیعہ برادری کو تحفظ دے : ہیومن رائٹس واچ
22 نومبر 2016انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے افغان حکومت سے اِس مطالبے میں کابل کی شیعہ مسجد ’باقر العلوم‘ میں ہلاک ہونے والے افراد کے خاندان بھی شامل ہیں۔ گزشتہ روز ہوئے اِس خود کُش حملے میں عاشورہ کے بعد چہلم کی مجلس میں شامل ستائیس شیعہ مسلمان ہلاک ہوئے تھے۔ جبکہ چونسٹھ زخمی ہو گئے تھے۔
ہیومن رائٹس واچ کی ایک سینیئر محقق پیٹریشیا گوس مَن نے شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے لیے متبادل مخفف استعمال کرتے ہوئے کہا، ’’شیعہ عوامی اجتماعات پر اسلامک اسٹیٹ کے اِن ہولناک اور نا جائز حملوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ اب کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں۔‘‘
خاتون محقق نے مزید کہا، ’’ضرورت اِس بات کی ہے کہ حکومت، شیعہ رہنما اور سول سوسائٹی کے افراد عوامی اجتماعات میں سیکیورٹی کی صورتِ حال بہتر بنانے کے لیے مِل کر کام کریں تاکہ شیعہ کمیونٹی اپنے مذہبی حقوق کو آزادانہ طور پر برت سکے۔ ‘‘ اِس سے قبل انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں کہا تھا،’’ افغان حکام کا فرض ہے کہ وہ شیعہ برادری کی حفاظت کے لیے ٹھوس اقدامات کریں اور شیعہ اقلیت پر لگے پرانے الزامات کو ختم کرے۔ ‘‘
کابل میں مسجد پر یہ حملہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب شیعہ مسلمان عاشورہ کے بعد ہونے والی چہلم کی مجلس میں شامل تھے۔ آج بروز منگل عزاداروں نے اپنے رشتہ داروں کی تدفین کے موقع پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ حکومت اُنہیں تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ ہلاک ہونے والے ایک شیعہ مسلمان کے رشتے دار غلام حیدر نے کہا، ’’ہم نے اِس حکومت کو ووٹ دیے تھے۔ حالاں کہ عسکریت پسندوں نے ووٹ ڈالنے والوں کی انگلیاں کاٹی تھیں۔ بدلے میں حکومت کو بھی ہمیں تحفظ فراہم کرنا چاہیے۔‘‘ افغان وزارتِ داخلہ نے کہا ہے کہ حملے میں ملوث ہونے کے الزام میں چار پولیس اہلکاروں کو معطّل کر دیا گیا ہے اور حملے کی مکمل تحقیقات کا آغاز کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ حملے کی ذمّہ داری جہادی تنظیم اسلامک اسٹیٹ نے قبول کر لی ہے۔
قبل ازیں عاشورہ کے موقع پر افغانستان کے شمال میں بھی ایک بم دھماکا ہوا تھا، جس کے نتیجے میں کم از کم چودہ شیعہ مسلمان ہلاک ہو گئے تھے۔ اس دھماکے سے چند روز پہلے داعش یا ’اسلامک اسٹیٹ‘ نے کابل میں ہی دو حملے کرتے ہوئے ہزارہ کمیونٹی کے اٹھارہ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔