افریقی ممالک چاڈ اور سوڈان کا تنازعہ پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے
17 اپریل 2006۔ ڈوئچے وَیلے کے Jan Tussing کا تبصرہ۔
سوڈانی علاقے دارفور کے دو لاکھ پچاس ہزار مہاجرین آج کل خوف، پریشانی اور کسمپرسی کے عالم میں وسطی افریقی جمہوریہ چاڈ کے مشرِق میں کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں۔اِن لوگوں کو اپنا گھر بار سوڈان کی نسل پرست مسلمان حکومت کی وجہ سے چھوڑنا پڑا ہے، جو گذشتہ کئی مہینوں سے سوڈان کے جنوبی علاقوں میں جارحانہ طریقے سے نسلی تطہیر کی کارروائیوںمیں مصروف ہے۔ چاڈ کے صدر اِدریس دیبی نے اِن ڈہائی لاکھ مہاجرین کو واپس دارفور بھیجنے کی دھمکی دی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر بین الاقوامی برادری نے سوڈان کے مسئلے کا کوئی حل نہ نکالا تو اِس سال جون سے وہ اِن مہاجرین کو اُن کے وطن واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کر دیں گے، جہاں یقینی طور پر موت اُن کی منتظر ہو گی۔ ایسا لگتا ہے، گویا چاڈ کا تنازعہ اور دارفور کا بحران پورے خطے کو غیر مستحکم بنا دیں گے۔
چاڈ کے صدر اِدریس دیبی اپنی داخلی سیاسی مشکلات کو ایک بڑی سطح پر لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے چاڈ میںکیمپوں میں پڑے ہوئے دارفور کے مہاجرین کو ایک حربے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔
تین مئی کو چاڈ میں انتخابات ہونے والے ہیں اور چاڈ کے صدر دیبی تیسری مرتبہ بھی اِس عہدے کے لئے اُمیدوار ہیں۔ چار سال پہلے کے ا نتخابات میں بھی صدر دیبی پر بڑے پیمانے کی انتخابی دھاندلی کے الزامات عاید کئے گئے تھے اور اب تیسری دفعہ بھی کچھ ایسا ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ اِسی چیز کو روکنے کے لئے متحدہ محاذ برائے تبدیلی سے تعلق رکھنے والے چاڈ کے باغیوں نے حکومت کا تختہ الٹنے کی بھی کوشش کی۔ اِس تنظیم میں خود صدر اِدریس دیبی کے کئی ایک قریبی ساتھی بھی شامل ہیں، جو صدر سے تنگ آ کر باغیوں سے جا ملے ہیں۔
صدر دیبی لیکن ہار ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں اور اِسی لئے وہ بین الاقوامی برادری پر دباو ڈالنے کے لئے اب سوڈانی مہاجرین والا حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ اگر دارالحکومت میں موجود بارہ سو فرانسیسی فوجی ساتھ نہ دیں تو شاید صدر دیبی کی حکومت ایک دن بھی نہ قائم رہ سکے۔
فرانسیسی فوجیوں اور اُن کے میراج بمبار طیاروں ہی کی وجہ سے باغیوں کی حکومت کا تختہ الٹنے کی حالیہ کوشش ناکام بنائی جا سکی۔ لیکن باغیوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک خاص حکمتِ عملی کی وجہ سے پسپا ہوئے ہیں۔ حقیقت بھی یہ ہے کہ باغی ابھی سے ملک کے 80 فیصد حصے پر کنٹرول حاصل کئے ہوئے ہیں اور صدر اِدریس دیبی کے اقتدار کا سورج کسی بھی وقت غروب ہو سکتا ہے۔
اُدھر دارفور کے سلسلے میں بین الاقوامی برادری کو بھی اب تک مکمل ناکامی ہوئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی تمام تر کھوکھلی دھمکیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے خرطوم حکومت اپنے ملک کے غیر مسلم باشندوں کو ملک سے نکالنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اگر اقوامِ متحدہ کا ادارہ دارفور کے حالات کو کسی وسیع تنازعے کی شکل اختیار کرنے سے روکنا چاہتا ہے تو اُسے کوشش کرنا ہو گی کہ چاڈ میں تین مئی کے انتخابات آئین کے مطابق یعنی آزادانہ اور منصفانہ طریقے سے منعقد ہوں۔
اب سوال یہی ہے کہ چاڈ میں پہلے کون پہنچتا ہے ، متحدہ محاذ برائے تبدیلی کے باغی یا پھر اقوامِ متحدہ کے امن فوجی؟ اب یہ بات واضح ہو کر سامنے آ گئی ہے کہ چاڈ کے باغی نہیں بلکہ دارفور تنازعے کو حل کرنے کے سلسلے میں اقوامِ متحدہ کی نا اہلی چاڈ کا اصل مسئلہ ہے۔