اسلحے کی بے مہار عالمگیر تجارت
29 جون 2012اسلحے کی تجارت بحرانی حالات میں خاص طور پر چمکتی ہے۔ اسلحہ ساز کمپنیاں ہر سال ٹینکوں، پستولوں، گولیوں اور جنگی طیاروں کی فروخت سے چھ ارب ڈالر سے زیادہ کماتی ہیں۔ اسلحے کی عالمی منڈی آمروں اور تنازعات کی فریق پارٹیوں کو ہر وہ چیز فراہم کرتی ہے، جس کی اُنہیں اپنے عوام کو دبانے یا جنگیں لڑنے کے لیے ضرورت پڑتی ہے۔ تازہ ترین مثال شام کی ہے۔ اسد حکومت کی طاقت کا انحصار خاص طور پر روس سے اسلحے کی درآمدات پر ہے۔
اقوام متحدہ کے رکن ممالک کے درمیان دو جولائی سے نیویارک میں اسلحے کی تجارت کو کنٹرول کرنے کے ایک عالمگیر معاہدے پر تبادلہء خیال شروع ہو رہا ہے۔ اس معاہدے کے مرکزی اہداف یہ ہوں گے کہ بحرانوں اور تنازعات کے شکار علاقوں کو کوئی ہتھیار فراہم نہ کیے جائیں، اگر کہیں انسانی حقوق کی پامالی کے خدشات ہوں تو وہاں اسلحہ برآمد کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ایک ہدف یہ بھی ہے کہ غربت کے خاتمے کی کوششوں یا اقتصادی ترقی کے لیے ممکنہ خطرات کی صورت میں بھی اسلحہ فراہم نہ کیا جائے۔
امریکا اور روس کے بعد جرمنی اسلحہ برآمد کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے اور عالمی منڈی میں اِس کا حصہ گیارہ فیصد بنتا ہے۔ ڈوئچے ویلے سے باتیں کرتے ہوئے وزارتِ خارجہ کی خاتون اسٹیٹ سیکرٹری کورنیلیا پیپر نے کہا کہ ’جرمنی نیویارک میں ہونے والی اس کانفرنس میں ایک ایسے مؤثر اور مستحکم آرمز ٹریڈ ٹریٹی کے لیے کوشاں ہو گا، جسے نافذ العمل بھی کیا جا سکتا ہو‘۔
جرمنی چھوٹے ہتھیاروں کی تجارت کو بھی کسی نظام کے تحت لانے کی وکالت کر رہا ہے اور یہ کام آسان ہرگز نہیں ہے۔ دنیا بھر میں چھوٹے ہتھیاروں کی تعداد کا اندازہ تقریباً 900 ملین لگایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے ان چھوٹے ہتھیاروں کو حقیقی معنوں میں ’بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار‘ قرار دیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دنیا میں پستول یا رائفل کی گولی ہر منٹ میں ایک انسان کی جان لے رہی ہے۔
نیویارک میں چار ہفتے تک جاری رہنے والی اس کانفرنس میں بنیادی سوال یہ ہو گا کہ ہتھیاروں کی فروخت کی نگرانی کا انتظام کیسے کیا جائے۔ ایک امکان یہ ہے کہ اس کے لیے اقوام متحدہ کا ایک ادارہ قائم کر دیا جائے۔
عالمی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان امریکا، روس، چین، فرانس اور برطانیہ ان مذاکرات کو مشکل بنا سکتے ہیں کیونکہ یہ ملک اسلحے کے سب سے بڑے برآمد کنندگان بھی ہیں۔ مبصرین کے مطابق یہ ممالک اس بات پر اصرار کریں گے کہ اسلحہ برآمد کرنا کسی ملک کا اپنا بنیادی حق ہے اور اس کا تعلق اُس کی حاکمیت اعلیٰ سے ہے۔ ایسے میں خدشہ یہ ہے کہ کوئی معاہدہ طے پا بھی گیا تو اُس کی حیثیت کاغذ کے ایک عام پرزے سے زیادہ نہیں ہو گی۔
M. Gehrke / aa / mm