1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسلامک اسٹیٹ کے خلاف شام میں بھی فضائی کارروائی کی جائے گی، اوباما

عاطف بلوچ11 ستمبر 2014

امریکی صدر نے کہا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو جہاں بھی ہوں گے، انہیں نشانہ بنایا جائے گا۔ اپنے نشریاتی خطاب میں انہوں نے اس انتہا پسند تنظیم کے خلاف عراق کے علاوہ شام میں بھی امریکی فضائی کارروائی کا اعلان کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1DA8z
صدر اوباما نے شام ی بحران شروع ہونے کے بعد میں پہلی مرتبہ وہاں براہ راست عسکری کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہےتصویر: Reuters

بدھ کی رات امریکی صدر باراک اوباما نے سنی انتہا پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف اپنی جامع حکمت عملی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں فعال ان جنگجوؤں کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ اپنے پندرہ منٹ دورانیے کے اس خطاب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت امریکا کو سب سے بڑا خطرہ اسلامک اسٹیٹ سے ہی ہے۔

Irak islamischer Staat Kämpfer Januar 2014
اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو شام اور عراق کے متعدد علاقوں پر قابو پا چکے ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo

اس عوامی خطاب میں اوباما نے کہا کہ واشنگٹن حکومت عراق میں اس خطرے سے نمٹنے کے لیے مزید 475 امریکی فوجی اہلکار روانہ کرے گی، جو وہاں عراقی اور کُرد فورسز کو انتظامی اور مشاورتی مدد فراہم کریں گے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عراق میں تعینات کیے جانے والے فوجی کسی عسکری کارروائی کا حصہ نہیں بنیں گے۔ انہوں نے شام میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف فضائی حملوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ عراق میں بھی جاری عسکری کارروائی میں وسعت پیدا کی جائے گی۔

صدر اوباما کا کہنا تھا کہ اسلامک اسٹیٹ کا مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ کوئی بھی مذہب معصوم لوگوں کو ہلاک کرنے کا درس نہیں دیتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان انتہا پسندوں کے حملوں میں زیادہ تر مسلمان ہی ہلاک ہوئے ہیں۔ اوباما نے یہ بھی واضح کیا کہ اسلامک اسٹیٹ کوئی ریاست بھی نہیں ہے بلکہ القاعدہ سے الگ ہونے والا ایک گروپ ہے، جس نے عراق میں فرقہ ورانہ کارروائیوں اور شام میں خانہ جنگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خود کو منظم کیا ہے، ’’صاف اور سیدھی بات یہ ہے کہ اسلامک اسٹیٹ صرف ایک دہشت گرد گروہ ہے۔‘‘

اوباما نے کانگریس پر زور دیا کہ وہ ایسے شامی باغیوں کے لیے تربیتی پروگرامز کی توثیق کرے، جو شامی صدر بشار الاسد کے ساتھ ساتھ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف بھی نبرد آزما ہیں۔ اسی اثناء میں مشرق وسطیٰ میں امریکا کے اتحادی ملک سعودی عرب نے ان باغیوں کی تربیت کے لیے پیشکش کر دی ہے۔

امریکی صدر کے مطابق، ’’یہ صرف ہماری جنگ ہی نہیں ہے۔ اگرچہ امریکا اس حوالے سے فیصلہ کن کردار ادا کر سکتا ہے تاہم امریکا عراقیوں کے لیے وہ کچھ نہیں کر سکتا، جو وہ خود کر سکتے ہیں۔‘‘ گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکا پر ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے تیرہ برس مکمل ہونے کے موقع پر کیے گئے اس خطاب میں صدر اوباما نے مزید کہا کہ گزشتہ ایک دہائی میں امریکا نے کئی ایسی کامیابیاں حاصل کی ہیں، جن کی بدولت اس وقت امریکا کے لیے دہشت گردی کے براہ راست خطرات کم ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اس دوران اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا ذکر بھی کیا۔

John Kerry Ankunft in Amman 10.09.2014
امریکی وزیر خارجہ مشرق وسطیٰ کے دورے پر ہیںتصویر: Reuters/Brendan Smialowsky

امریکی صدر اوباما نے زور دیا کہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف ان کی حکمت عملی میں جہاں اس انتہا پسند گروہ کو نشانہ بنایا جائے گا، وہیں علاقائی سطح پر ایک اتحاد بناتے ہوئے اس خطے کے مستقبل کو محفوظ بنانے کی کوشش کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ اسی سلسلے میں وزیر خارجہ جان کیری مشرقی وسطیٰ کے دورے پر ہیں اور انہوں نے عراق کا دورہ بھی کیا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ نے بھی کہا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کی بربریت جاری رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ علاقائی سطح پر حمایت حاصل کرنے کے لیے انہوں نے عراقی قیادت سے ملاقاتوں کے علاوہ بدھ کے دن ہی اردن کا دورہ بھی کیا۔ عمان میں انہوں نے شاہ عبداللہ سے ملاقات میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف کارروائی کے لیے عسکری تعاون پر تبادلہ خیال کیا۔ وہ اپنے اس دورے کے دوران یورپ بھی جائیں گے تاکہ اس مقصد کے لیے یورپی ممالک کی حمایت بھی حاصل کی جا سکے۔