اسلامک اسٹیٹ ایک مشترکہ خطرہ ہے، نیٹو اتحاد
6 ستمبر 2014ویلز میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے دو روزہ سربراہی اجلاس کے دوسرے اور آخری روز رکن ممالک نے زور دیا کہ اس گروہ کو سرمایے کی فراہمی روکنے کے ساتھ ساتھ اس سے نمٹنے کے لیے فوجی طاقت کا استعمال بھی کیا جائے گا۔
یہ شدت پسند گروہ شام اور عراق کے مختلف علاقوں پر کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے اور گزشتہ چند ماہ میں اس گروہ نے نہ صرف اپنی مجموعی طاقت میں اضافہ کیا ہے بلکہ اپنی مربوط میڈیا مہم کے ذریعے دنیا بھر سے عسکریت پسندوں کو بھی اپنی جانب راغب کرنے میں کامیاب رہا ہے۔
امریکی صدر باراک اوباما نے جمعے کے روز کہا کہ اس تنظیم کے مقابلے میں شام میں اعتدال پسند باغی اور حکومتی فورسز، دونوں ہتھیاروں اور افرادی قوت کی کمی کا شکار ہیں۔ صدر اوباما نے نیٹو ممالک کے ساتھ ساتھ اپنے عرب ساتھی ممالک پر بھی زور دیا کہ وہ اسلامک اسٹیٹ کی ’بربریت‘ کو مسترد کر دیں۔
امریکی صدر اوباما نے کہا کہ نیٹو ممالک کا ایک نیا اتحاد عسکریت پسندوں کی پیش قدمی کو روکے گا جب کہ اس سلسلے میں امریکی وزیرخارجہ اور وزیر دفاع کو ہدایات کی گئی ہیں کہ وہ اس سلسلے میں بین الاقوامی برادری سے ملیں گے۔ اوباما نے زور دیا کہ اس حوالے سے مغربی ممالک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس تک اسلامک اسٹیٹ کی پیش قدمی روکنے کے لیے ایک مربوط منصوبہ وضع کریں گے۔
’’اس سلسلے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اس عفریت تنظیم کو روکا جائے، جس نے خطے میں عدم استحکام اور نیٹو ممالک کی سلامتی کو ایک طویل المدتی خطرے سے دوچار کیا ہے۔‘
صدر اوباما نے اشارتاﹰ کہا کہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں القاعدہ کے مضبوط ٹھکانے تھے، جنہیں امریکی فضائی کارروائیوں نے مستقل مزاجی سے نشانہ بنایا اور اس دہشت گرد تنظیم کی قیادت کا خاتمہ کیا۔
یہ بات اہم ہے کہ عراق میں امریکی فضائی کارروائیاں اس وقت خاصی محدود پیمانے پر ہیں، تاہم اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے ڈھانچے کو تباہ کرنے کے لیے امریکا ان کارروائیوں میں تیزی لا سکتا ہے۔