اسرائیلی کابینہ نے فلسطین کے حوالے سے جنرل اسمبلی کی ووٹنگ مسترد کر دی
3 دسمبر 2012کابینہ کو اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے بتایا کہ جنرل اسمبلی سے فلسطینی عوام کی اپیل اسرائیلی حکومت کے ساتھ طے کردہ اصولوں کی کھلی اور سنگین خلاف ورزی تھی۔ نیتن یاہو کا مزید کہنا تھا کہ فلسطینی ریاست کا قیام اس وقت تک عمل میں نہیں آ سکتا جب تک اسرائیل کو یہودیوں کی باقاعدہ ریاست کے طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا اور فلسطینیوں کی جانب سے مسلح تنازعے کے خاتمےکا اعلان سامنے نہیں آجاتا۔
اسرائیلی کابینہ نے اپنے اجلاس میں طے کیا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد میں نیا کچھ بھی نہیں ہے۔ کابینہ کے مطابق اقوام متحدہ کی قرارداد میں متنازعہ علاقے کے حیثیت میں کوئی نئی تبدیلی نہیں کی گئی اور نہ ہی اسرائیل کی ریاست اور یہودیوں کے حقوق میں کمی سامنے آئی ہے۔
جمعرات کے روز جنرل اسمبلی میں ووٹنگ کے بعد اسرائیل نے اس خطیر مالی رقم کو ضبط کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو وہ فلسطینی اتھارٹی کے لیے اکھٹی کرتا ہے۔ اسرائیل کے وزیر خزانہ یوال اسٹائنٹز (Yuval Steinitz) کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کو مہیا کردہ رقوم اب اسرائیلی الیکٹرک کمپنی کے فلسطینی اتھارٹی کے ذمے واجب الادا قرضے چکانے میں صرف کی جائیں گی۔ اسرائیلی وزیر خزانہ کے مطابق فلسطینی اتھارٹی اس وقت اسرائیل الیکٹرک کمپنی کی دو سو ملین ڈالر کی مقروض ہے۔ اعلیٰ فلسطینی رہنما یاسر عبد ربو نے اسرائیل کی جانب سے فلسطینی رقوم کو ضبط کرنے کو قزاقی اور چوری قرار دیا ہے۔
دوسری جانب جمعے کے روز اسرائیل کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ وہ مغربی کنارے میں مزید تین ہزار یہودیوں کو آباد کرے گا۔ ان آبادکاروں کے مکانات ویسٹ بینک اور مشرقی یروشلم میں تعمیر کیے جانے کا بھی فیصلہ سامنے آیا ہے۔ اس اعلان کے بعد اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کے بیان میں کہا گیا کہ نئی آبادکاری کا اعلان دو ریاستی حل کی کوششوں کے لیے انتہائی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف کیتھرین ایشٹن نے اتوار کے روز نئی یہودی آباد کاری کے حوالے سے کہا کہ ہر قسم کی آباد کاری بین الاقوامی قانون کے تحت غیرقانونی ہے اور یہ امن کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر ابھرتی ہے۔ اسی طرح امریکا کی جانب سے کہا گیا کہ اسرائیلی حکومت کا یہ پلان براہ راست امن مذاکرات کی بحالی کی منشا کے منافی ہے۔ اسرائیل اور فلسطینی قیادت کے درمیان تقریباً دو برسوں سے امن مذاکرات تعطلی کا شکار ہیں۔
اگر ایک طرف اسرائیلی کابینہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطین کے لیے نان ممبر آبزرور کے حق میں دی گئی رائے شماری کو مسترد کر دیا تو دوسری جانب فلسطینی رہنما محمود عباس جب رملہ پہنچے تو ان کا شاندار استقبال کیا گیا اور اس موقع پر انہوں نے کہا کہ فلسطین اب ایک ریاست ہے اور اب فلسطینی اپنے سر اٹھا کر آگے بڑھیں گے۔
ah / at (dpa, Reuters)