اسرائیلی فلسطینی امن عمل، ویسٹر ویلے پروشلم میں
11 اگست 2013یہودی آباد کاروں کے لیے یہ رہائشی یونٹ مشرقی یروشلم اور مغربی اُردن میں تعمیر کیے جائیں گے۔ فلسطینیوں نے اس پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ اسرائیل امن عمل میں سنجیدہ نہیں ہے۔
امریکا کی ثالثی کوششوں کے نتیجے میں ابھی دو ہفتے قبل اسرائیل اور فلسطینیوں نے اپنے تین سال سے تعطل کے شکار چلے آ رہے امن مذاکرات کو پھر سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ تب یہ طے کیا گیا تھا کہ دونوں فریق اگلے نو ماہ کے اندر اندر دو ریاستی حل پر اتفاقِ رائے کے لیے کوشاں ہوں گے۔ ان مذاکرات کا اگلا دور آئندہ بدھ کو ہو رہا ہے۔
آج اتوار کو وفاقی جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے یروشلم پہنچے، جہاں اُنہوں نے اسرائیل کی جانب سے مذاکرات کی سربراہی کرنے والی خاتون وزیر انصاف زیپی لیونی کے ساتھ ملاقات کی۔ اس موقع پر ویسٹر ویلے نے دونوں فریقوں کو اُن کے نئے مذاکراتی دور کے لیے جرمنی کی جانب سے مکمل تائید و حمایت کا یقین دلایا اور کہا کہ ’جرمنی ان مذاکرات کے سلسلے میں ایک تعمیری اور معاون کردار ادا کرے گا‘۔ ویسٹر ویلے کے مطابق یہ امن مذاکرات ان دونوں فریقوں کے ساتھ ساتھ پورے خطّے بلکہ پوری دنیا کے مفاد میں ہیں۔
آج ہی ویسٹر ویلے کی ملاقات اسرائیلی صدر شمون پیریز کے ساتھ بھی ہو رہی ہے جبکہ کل پیر کو وہ یروشلم میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور راملہ میں فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی ملیں گے۔ ان تمام ملاقاتوں میں نئے امن مذاکرات کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔
تاہم امن عمل کی جانب اس پیشرفت کو آج یروشلم میں اسرائیلی وزارتِ تعمیرات کی طرف سے جاری کیے گئے اُن اشتہارات سے ایک بڑا دھچکا پہنچ سکتا ہے، جن میں یہودی آبادکاروں کے لیے مشرقی یروشلم میں 793 اور مغربی اردن میں 394 رہائشی یونٹوں کی تعمیر کے لیے ٹینڈر طلب کیےگئے ہیں۔
اسرائیل نے 1967ء سے اپنے قبضے میں آئے ہوئے فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیاں تعمیر کرنے کی جو پالیسی اختیار کر رکھی ہے، وہ امن عمل کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹوں میں سے ایک ہے۔ تاہم آج جرمن وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات میں زیپی لیونی نے یورپی یونین پر زور دیا کہ وہ مغربی اُردن میں اسرائیل کی بستیوں سے متعلق پالیسی کے سلسلے میں سخت موقف اپناتے ہوئے امن مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ نہ ڈالے اور یہ موقف ترک کر دے۔ ساتھ ہی اسرائیلی وزیر انصاف نے یہ بھی کہا کہ سرحدوں کے تعین کا معاملہ بھی اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین مذاکرات پر چھوڑ دیا جانا چاہیے۔
مغربی اردن اور مشرقی یروشلم میں 2.5 ملین فلسطینیوں کے بیچوں بیچ کوئی پانچ لاکھ یہودی آباد کاروں نے اپنی بستیاں بسا رکھی ہیں۔ آج مزید ایک ہزار سے زیادہ رہائشی یونٹوں کی تعمیر کے ٹینڈرز طلب کیے جانے پر فلسطینی سراپا احتجاج ہیں۔ نیوز ایجنسی روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے سرکردہ فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات نے کہا:’’بین الاقوامی برادری کو اس امن عمل کا ساتھ دینا چاہیے، ہمارے شانہ بشانہ کھڑا ہونا چاہیے اور اسرائیل کی طرف سے یہودی بستیوں کی بدستور جاری تعمیر و توسیع کی مذمت کرنی چاہیے۔ ان تعمیراتی سرگرمیوں کے جاری رہنے کا مطلب مذاکرات نہیں بلکہ فلسطینیوں پر اپنی مرضی مسلط کرنا ہے۔‘‘ 2010ء میں بھی ان بستیوں کی تعمیر ہی کے معاملے پر امن مذاکرات کا عمل منقطع ہو گیا تھا۔