1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

اسرائیل کی ’سخت ترین مخالفت‘ لاطینی امریکا میں

امتیاز احمد2 اگست 2014

غزہ میں اسرائیلی جنگ کی سب سے پُر زور اور شدید مذمت لاطینی امریکی رہنماؤں نے کی ہے۔ اسرائیل کو ’دہشت گرد‘ ریاست کہا گیا ہے اور سفیروں کو واپس بلاتے ہوئے فلسطینیوں کو متفقّہ اور اٹل حمایت کی پیش کش کی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Cnjy
تصویر: Abbas Momani/AFP/Getty Images

برازیل میں ساؤ پاؤلو شہر کی یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات ریگنالڈو ناصر کہتے ہیں، ’’مجھے ماضی کی کوئی ایسی صورتحال یاد نہیں ہے، جس میں (اس خطے کے تمام ملکوں نے) اس طرح ایک بلاک کے طور پر عملی ردعمل ظاہر کیا ہو۔‘‘ ابھی حال ہیں میں سب سے سخت علامتی احتجاج بائیں بازو کے رہنما اور بولیویا کے صدر ایوو مورالیس کی طرف سے سامنے آیا۔ انہوں نے اسرائیل کو نہ صرف ’دہشت گرد ریاستوں‘ کی فہرست میں شامل کیا بلکہ اپنے ملک میں تمام اسرائیلیوں کے لیے ویزا فری انٹری جیسی سہولت بھی ختم کر دی ہے۔

سفارت کاروں کی واپسی

رواں ہفتے برازیل کی خاتون صدر ڈلما روسیف نے غزہ میں جاری اسرائیلی فوجی آپریشن کو ’قتل عام‘ قرار دیا ہے۔ اسرائیل اور برازیل کے مابین سفارتی تنازعہ اس ہفتے کے آغاز میں اس وقت شروع ہوا تھا، جب برازیل نے تل ابیب سے اپنے سفیر کو احتجاجاﹰ واپس بلا لیا تھا۔ اسرائیلی وزارت خارجہ نے اس اقدام کو ’سفارتی بونا پن‘ قرار دیا تھا۔ لیکن دیگر لاطینی امریکی ملکوں کے رہنماؤں کی طرف سے اسرائیل کی مذمت روسیف سے بھی سخت تھی۔ وینزویلا کے صدر نیکولس مادورو نے اسرائیلی آپریشن کو فلسطینیوں کے خلاف ’’تقریبا ایک صدی پر محیط قتل کی جنگ‘‘ قرار دیا۔ انہی کی جماعت کے ایک قانون ساز نے کہا کہ اسرائیل فلسطینیوں کی ’نسل کُشی‘ کر رہا ہے۔ تاہم برازیل کی صدر نے یہ اصطلاح استعمال نہیں کی۔

پیرو، ایکواڈور، چلی اور ال سلواڈور نے بھی مشاورت کے ليے اپنے سفیروں کو اسرائیل سے واپس بلا لیا ہے جبکہ کوسٹا ریکا اور ارجنٹائن نے اسرائیلی سفیروں کو طلب کیا ہے۔ خطے کے ان دونوں ملکوں میں سب سے زیادہ یہودی آباد ہیں۔ اس خطے کے ممالک نے اسرائیلی فوجی آپریشن اور تشدد کی مذمت کی ہے۔ جنگ بندی اور دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کی بحالی پر زور دیا ہے۔ جمعرات کو یوروگوائے کے صدر نے بھی اسرائیل سے فوری طور پر ’فوجوں کی واپسی‘ کا مطالبہ کیا تھا اور تل ابیب سے اپنے سفیر کی واپسی کی تجویز دی تھی۔ دیگر بائیں بازو کے لاطینی امریکی ملک پہلے ہی اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑ چکے ہیں۔ نکاراگوا نے سن 2010ء میں جبکہ وینزویلا اور بولیویا نے سن 2009ء کی غزہ جنگ کے بعد اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کر دیے تھے۔ ان سے پہلے کیوبا نے سن 1973ء میں یوم کِپور کی جنگ کے بعد اسرائیل سے ناطے توڑ لیے تھے۔

ابھی تک لاطینی امریکا میں صرف کولمبیا ایک ایسا ملک ہے، جس کی آواز ان ممالک سے مختلف تھی اور وہاں کی صدر نے اپنے سفیر کو واپس بلانے سے انکار کر دیا تھا۔ میکسیکو کی آٹونوموس یونیورسٹی کے ماہر سیاسیات اتہائی براس کہتے ہیں کہ سرکاری بیانات سے ان ملکوں میں پائے جانے والے عوامی غم و غصے کی بھی جھلک نظر آتی ہے۔ حالیہ چند ہفتوں میں پورے خطے میں میکسیکو سے لے کر چلی تک فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوئے ہیں۔

ریگنالڈو ناصر کے مطابق اس مرتبہ عرب ملکوں کی نسبت یورپ اور لاطینی امریکا میں ہونے والے اسرائیل مخالف احتجاجی مظاہرے زیادہ بڑے تھے۔