1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتاسرائیل

اسرائیل کا احتساب کرنا لازمی ہو چکا، اقوام متحدہ کے ماہرین

31 دسمبر 2024

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے متعدد ماہرین کے بقول غزہ میں فلسطینی شہریوں پر ’حد درجہ مصائب‘ ڈھانے پر اسرائیل کا احتساب کرنا لازمی ہے۔ انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ اسرائیل بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/4ohqh
Gazastreifen | Zerstörte Häuser nach israelischen Luftangriffen
تصویر: OMAR AL-QATTAA/AFP

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے گیارہ ماہرین نے ایک مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ اسرائیل کو اتحادی ممالک کا تعاون حاصل ہے اور وہ اس آڑ میں غزہ کے باسیوں پر 'ظلم وستم‘ ڈھا رہا ہے۔

ان ماہرین نے مزید کہا ہے کہ بین الاقوامی انسانی قوانین کے تحت شہریوں کا تحفظ یقینی بنایا گیا ہے لیکن ''اسرائیل ان قوانین کی پاسداری کرنے کے بجائے بار بار ان بین الاقوامی قوانین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کر رہا ہے اور مقبوضہ فلسطینی علاقے اور اس سے باہر شہریوں کو زیادہ سے زیادہ مصائب کا نشانہ‘‘ بنا رہا ہے۔

ان ماہرین کے بقول اسرائیل کو اب تک حقیقی نتائج کا سامنا اس لیے نہیں کرنا پڑا کیونکہ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اسے اپنے اتحادیوں کی جانب سے تحفظ حاصل ہے۔

غزہ پٹی میں مسلح تنازعہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل پر ایک بڑا دہشت گردانہ حملہ کیا تھا۔ اس حملے میں کم ازکم 1200 افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔ اس کے علاوہ حماس کے جنگجو 250 سے زائد افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ غزہ پٹی بھی لے گئے تھے۔ امریکا، یورپی یونین اور دیگر مغربی طاقتیں حماس کو دہشت گرد گروپ قرار دیتی ہیں۔

ہسپتال پر بمباری جنگی جرم کیوں ہے؟

فلسطینی عسکریت پسندوں کی طرف سے شہریوں پر کیے گئے اس لرزہ خیز حملے کے بعد اسرائیل نے غزہ پٹی میں حماس کے جنگجوؤں کے خلاف فضائی، سمندری اور زمینی حملے کرنا شروع کر دیے تھے، جن کے نتیجے میں فلسطینی ذرائع کے مطابق غزہ پٹی میں آج تک تقریبا 45,541 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔

آزادانہ اور شفاف تحقیقات کا مطالبہ

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے اسرائیل کی جانب سےانسانیت کے خلاف ایسے مبینہ جرائم کا تذکرہ بھی کیا ہے، جن میں قتل، تشدد، جنسی تشدد اور بار بار جبری نقل مکانی شامل ہیں۔

ان ماہرین نے مبینہ جنگی جرائم کے ارتکاب کا بھی الزام عائد کیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ ان میں 'شہریوں اور شہری املاک و اشیاء پر اندھا دھند حملے، بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا اور  اجتماعی سزائیں‘ بھی شامل ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ 'مکمل یا جزوی تباہی کے لیے کی جانے والی یہ کارروائیاں نسل کشی کے زمرے میں آتی ہیں‘۔

ان ماہرین نے بین الاقوامی قوانین کی مبینہ سنگین خلاف ورزیوں کی فوری، آزادانہ اور مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو حاصل یہ استثنیٰ ایک خطرناک پیغام دیتا ہے، اس لیے اسرائیل اور اس کے رہنماؤں کا احتساب ہونا چاہیے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ خاص طور پر غزہ پٹی کے شمال میں اسرائیلی عسکری کارروائیوں سے پریشان ہیں۔ رواں سال چھ اکتوبر سے اسرائیلی کارروائیوں میں شمالی غزہ پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے، جس کا مقصد وہاں حماس کو دوبارہ منظم ہونے سے روکنا ہے۔

واضح رہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے یہ ماہرین اقوام متحدہ کے ترجمان نہیں ہیں۔

اے ایف پی، روئٹرز (ع ب/ ع ت، م م)

سات اکتوبر کو ہوا کیا؟ جس کے بعد اسرائیلی حملے شروع ہوئے!

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں