اسرائیل نے چھبیس فلسطینی قیدی رہا کر دیے
30 اکتوبر 2013اسرائیل کی حکومت کی جانب سے زیر حراست چھبیس فلسطینیوں کو رہا کرنے کے فیصلے پر اسرائیل میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اسرائیل میں ان افراد کے بارے میں رائے ہے کہ یہ فلسطینی اسرائیلیوں کے خلاف سنگین جرائم میں ملوث ہیں۔ اس کے بر خلاف مغربی کنارے اور غزہ پٹی میں ان افراد کی رہائی پر جشن کا سماں ہے۔ ان افراد کا استقبال ان کے اہل خانہ اور فلسطینی رہنماؤں نے کیا۔ انہیں فلسطین میں آزادی کے لیے لڑی جانے والی جنگ کا ہیرو سمجھا جاتا ہے۔
بدھ کو تکمیل پانے والی یہ رہائی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان امن مذاکرات کو کامیاب بنانے کی ایک کڑی قرار دی جا رہی ہے۔ یہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی کا دوسرا دور تھا۔ چار ادوار میں ایک سو چار فلسطینیوں کو رہا کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ سن دو ہزار آٹھ سے فلسطینوں اور اسرائیل کے درمیان امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے دیرنہ تنازعے کے حل کے لیے تین سال کے بعد جولائی کے مہینے میں امن مذاکرات کیے گئے تھے۔ ان مذاکرات کا ممکن ہونا امریکی وزیر خارجہ جان کیری کی کاوشوں کا نتیجہ قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم بیشتر اسرائیلی اور فلسطینی مذاکرات کے اس نئے دور سے زیادہ پر امید دکھائی نہیں دیتے۔
عباس نے بدھ کے روز رہا ہونے والے فلسطینیوں کے استقبال کے موقع پر کہا کہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی امن عمل کے لیے ناگزیر ہے۔ ’’اسرائیل کے ساتھ کوئی بھی سمجھوتا اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینیوں کی رہائی کو عمل میں لائے بغیر نہیں ہوگا۔‘‘
تقریباً پچاس اسرائیلیوں نے ان افراد کی رہائی کے خلاف ویسٹ بینک میں قائم ایک جیل کے باہر احتجاج کیا۔
قبل ازیں اسرائیل کی سپریم کورٹ نے اس اپیل کو مسترد کر دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ زیر حراست فلسطینیوں کو رہا نہ کیا جائے۔
امن مذاکرات کی کامیابی میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینی علاقوں میں یہودی بستیوں کی تعمیرات کو ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا جاتا ہے۔ صدر محمود عباس نے گزشتہ ماہ جنرل اسمبلی کے فورم کو ایک مرتبہ پھر ان تعمیرات کو رکوانے کے مطالبے کے لیے استعمال کیا تھا۔ ’’بین الاقوامی برادری کو ایسے اقدامات کی مذمت کرنا چاہیے جو ان مذاکرات کی ناکامی کا سبب بن سکتے ہیں۔‘‘