اسرائیل نے مزید فلسطینی قیدی رہا کر دیے
31 دسمبر 2013رواں برس جولائی میں بحال ہونے والے امن مذاکرات کے بعد اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے وعدہ کیا تھا کہ 104 فلسطینی قیدی مرحلہ وار رہا کر دیے جائیں گے۔ اس کے بعد سے قیدیوں کی رہائی کا یہ تیسرا موقع ہے۔
اسرائیل کے متاثرہ خاندانوں نے ان قیدیوں کی رہائی کے خلاف اپیل دائر کر رکھی تھی جو پیر کو قبل ازیں ایک عدالت نے مسترد کر دی جس کے بعد عالمی وقت کے مطابق نصف شب کو ان کی رہائی عمل میں آئی۔
واشنگٹن حکومت نے اسے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے جو ایک ایسے وقت ہوئی ہے جب امریکی وزیر خارجہ جان کیری امن مذاکرات کے نظام الاوقات میں مدد دینے کے لیے خطے کا دورہ کرنے والے ہے۔ وہ نئے سال کے روز وہاں پہنچیں گے۔
قبل ازیں ایک فلسطینی اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ دو گاڑیاں 18 قیدیوں کو لیے راملہ کے لیے روانہ ہو گئی ہیں۔ تین قیدیوں کو غزہ لے جایا گیا جبکہ دیگر پانچ مشرقی یروشلم پہنچ گئے ہیں۔ متاثرہ اسرائیلی خاندانوں نے انہی پانچ قیدیوں کی رہائی کے خلاف عدالت میں اپیل دائر کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی رہائی نیتن یاہو کے وعدے کے برعکس ہے۔
رہائی پانے والے افراد 1993ء کے اوسلو معاہدوں پر دستخط سے قبل قید میں تھے۔ ان معاہدوں کے تحت ہی مشرق وسطیٰ میں امن عمل شروع کيے گئے۔ یہ قیدی اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کی ہلاکتوں پر 19سے 28 برس جیل میں رہے۔
راملہ پہنچنے والے قیدیوں کو صدارتی محل لے جایا گیا جہاں فلسطینی صدر محمود عباس نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ بعدازاں انہوں نے فلسطینی رہنما یاسر عرفات کی قبر پر پھول چڑھائے۔
اس موقع پر محمود عباس کا کہنا تھا کہ جب تک تمام قیدی گھروں کو نہیں لوٹ آتے، اسرائیل کے ساتھ کوئی حتمی معاہدہ نہیں ہو گا۔ قیدیوں کی رہائی چار مرحلوں میں طے پائی تھی اور آخری مرحلہ آئندہ برس اپریل کے آخر تک متوقع ہے۔
اے ایف پی کے مطابق رہائی پانے والے افراد کو فلسطینی ہیرو قرار دیتے ہیں جنہوں نے ’اسرائیلی تسلط‘ کے خلاف لڑائی کی۔ تاہم اسرائیل میں ان افراد کو قاتل قرار دیا جاتا ہے اور وہاں بیشتر لوگوں نے ان کی رہائی پر غم و غصے کا اظہار کیا۔ پیر کی شب تقریباﹰ ڈیڑھ سو افراد نے یروشلم میں وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے سامنے مظاہرہ بھی کیا۔ وہ اپنے ہلاک ہونے والے عزیزوں کی تصویریں اٹھائے ہوئے تھے۔