اسرائیل صدر عباس کے ساتھ امن ڈیل مکمل کرے: پیریز
31 دسمبر 2012یروشلم میں صدارتی رہائش گاہ پر اتوار کے روز اسرائیلی سفارتکاروں سے گفتگو کرتے ہوئے صدر پیریز نے کہا کہ فلسطین کے ساتھ معطل بات چیت کے عمل کی بحالی بہت ضروری ہے کیونکہ اس وقت فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کی صورت میں امن کی خواہش رکھنے والا پارٹنز موجود ہے اور ان کے ساتھ بات چیت کو دوبارہ شروع کر کے کسی باہمی معاہدے کو حتمی شکل دی جا سکتی ہے۔ شمعون پیریز نے اپنی گفتگو میں اس امر کا اعتراف کیا کہ امن معاہدے کے حوالے سے اختلافی موقف یقینی طور پر موجود ہیں۔
صدر شمعون پیریز نے گفتگو کے دوران کہا کہ موجودہ صورت حال میں معاملہ مختلف نظریات کا نہیں ہے بلکہ اب پائی جانے والی صورت حال کے مطابق عمل کرنا ہو گا۔ شمعون پیریز نے اسرائیلی سفارتکاروں کو بتایا کہ وہ ابو میزان (محمود عباس) کو گزشتہ تیس برسوں سے جانتے ہیں اور کوئی بھی عباس کے بارے میں ان کی سوچ کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ شمعون پیریز کا خیال ہے کہ اس وقت عرب دنیا میں ان کے علاوہ کوئی بھی لیڈر امن مذاکرات کے حوالے سے بات نہیں کرتا۔ اسرائیلی صدر نے کہا کہ یہ درست ہے کہ فلسطینی لیڈر نے بعض معاملات پر تنقید ضرور کی ہے۔
ملکی سفارتکاروں سے گفتگو کرتے ہوئے اسرائیلی صدر کا محمود عباس کے بارے میں یہ بھی کہنا تھا کہ وہ ایک ایسے لیڈر ہیں جو امن کے حامی اور دہشت گردی کے مخالف ہیں۔ صدر پیریز کے خیال میں محمود عباس غیر مسلح ریاست کے لیے بھی تیار ہیں اور وہ عمومی اتفاق رائے کے ساتھ ساتھ فلسطینی مہاجرین کی واپسی کی بات بھی کرتے ہیں۔ پیریز نے اسرائیلی حکومت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اب زیادہ وقت نہیں ہے اور اسی لیے دوطرفہ امن معاہدے کو حتمی شکل دے دینا چاہیے۔
اسرائیلی صدر کے بیان پر وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کی سیاسی پارٹی کی جانب سے ردعمل سامنے آیا ہے۔ رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق نیتن یاہو کی سیاسی جماعت لیکوڈ پارٹی اگلے ماہ کی 22 تاریخ کو ہونے والے انتخابات میں فیورٹ ہے۔ لیکوڈ پارٹی کے ساتھ سابق وزیر خارجہ ایویگڈور لیبرمان کی جماعت بھی شامل ہے۔ لیکوڈ پارٹی اور اسرائیل بیت نو پارٹی کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ افسوسناک بات ہے کہ اسرائیلی صدر نے اپنی ذاتی سیاسی رائے کا اظہار کیا ہے، جو اسرائیل کے ابو میزان کے بارے میں عوامی موقف سے متصادم ہے۔
بیان میں یہ بھی کہا گہا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے درجنوں مرتبہ ابو میزان کو بات چیت کی میز پر آنے کی دعوت دی لیکن وہ اس کے برعکس عمل کرتے رہے اور حماس جیسی قوت کے ساتھ شامل ہو گئے۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے بھی نرم لہجے میں صدر کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ان کی عزت کرتے ہیں اور ان کے خیالات کو وقعت دیتے ہیں۔ نیتن یاہو کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی ہیں اور اس موضوع پر جب بات ہو گی تو وہ مختلف طرح کے نقطہ ہائے نظر پر بات کریں گے۔
اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان مذاکراتی عمل ستمبر سن 2010 سے معطل ہے۔ فلسطینی حکام کا اصرار ہے کہ اسرائیل نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے عمل کو مکمل طور پر منجمد کرے اور ایسے کسی فیصلے کے اعلان کے بعد ہی فلسطینی مذاکرات شروع کرنے پر تیار ہوں گے۔
ah / mm ( AFP)