ارکان پارلیمان کی جعلی ڈگریوں کی چھان بین مکمل
19 جنوری 2011کمیشن کے ترجمان رحیم بخش چنا کے مطابق اٹھاون ارکان پارلیمنٹ کی ڈگریاں جعلی قرار پائیں جن میں سے چار نے عدالت سے رجوع کر لیا ہے۔ ادھر ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر جاوید لغاری کا کہنا ہے کہ ڈگریوں کی تصدیق کے لیے آن لائن نظام قائم کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ویب سائٹ کو اپ گریڈ کر دیا گیا ہے، جہاں اب یہ بھی واضح کر دیا گیا ہےکہ کن یونیورسٹیوں کی اسناد کو قبول کیا جائے گا۔
پاکستان میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی جانب سے ارکان پارلیمنٹ کے انتخاب کے لیے گریجویشن کی شرط عائد کی گئی تھی، جس کے نتیجے میں کئی سینئر سیاستدان پارلیمنٹ سے باہر رہ گئے تھے۔
موجودہ حکومت نے اٹھارویں ترمیم میں گریجویشن کی شرط تو ختم کر دی لیکن بعد ازاں اس بات کا انکشاف ہوا کہ کئی ارکان نے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے جعلی ڈگریوں کا سہارا لیا تھا۔ سپریم کورٹ کی طرف سے جعلی ڈگریوں کے کیس کی سماعت کے بعد الیکشن کمیشن نے ایسے ارکان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جن کی تعلیمی اسناد مشکوک ہیں۔
حال ہی میں الیکشن کمیشن کی جانب سے جن ارکان اسمبلی کی ڈگریوں کو مشکوک قرار دیا گیا ان میں وفاقی وزیر ڈاکٹر بابر اعوان اور قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان بھی شامل ہیں۔ تاہم ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کی ڈگریاں اصلی ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر بابر اعوان نے سینیٹ سیکریٹیریٹ میں ایک تحریک استحقاق بھی جمع کروا رکھی ہے۔
دوسری جانب جعلی ڈگری ر کھنے کے الزام میں الیکشن کمیشن میں پیش ہونے والی پنجاب کی رکن اسمبلی سیمل کامران نے اپنی صفائی میں الیکشن کمیشن پر تنقید کرتے ہوئے کہا: ’’اگر اس طرح کاغذات نامزدگی منظور کیے گئے تھے تو اس سے الیکشن کمیشن کی ساکھ داؤ پر لگتی ہے۔‘‘
مسلم لیگ ق کے رکن پنجاب اسمبلی شوکت بھٹی نے بھی اپنی مبینہ جعلی ڈگری کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ صرف ایک نقطے نے انہیں محرم سے مجرم بنا دیاہے۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عصمت جبیں