’اب کے ہم بچھڑے تو شایدکبھی خوابوں میں ملیں‘
18 جولائی 2018مہدی حسن اٹھارہ جولائی 1927ء میں بھارتی ریاست راجستھان کے ایک گاؤں لُونا میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد اور چچا دُھرپد گائیکی کے ماہر تھے۔ مہدی حسن کی ابتدائی تربیت گھر ہی میں ہوئی۔ خود اُن کے بقول وہ کلاونت گھرانے کی سولہویں پیڑھی سے تعلق رکھتے تھے۔
1947ء میں مہدی حسن اہل خانہ کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان چلے گئے اور سائیکلیں مرمت کرنے کا کام شروع کیا۔ اس کے بعد انہوں نے ڈیزل انجن مکینک کے کام میں مہارت حاصل کی اور پہلے موٹر اور اس کے بعد ٹریکٹر کے مکینک بن گئے۔ اس دوران بھی وہ موسیقی کے خیال سے غافل نہیں رہے اور ان حالات میں بھی ریاض جاری رکھا۔
1952ءکی دہائی میں ان کا تعارف ریڈیو پاکستان کے پروڈیوسر سلیم گیلانی سے ہوا۔ گیلانی کی جوہر شناس شخصیت نے ریڈیو پاکستان لاہور میں ہونے والی موسیقی کانفرنس میں انہیں غزل گانے کا موقع دیا اور مہدی حسن کو ایک نئی راہ مل گئی۔ ساٹھ کی دہائی میں ان کی گائی ہوئی فیص احمد فیض کی غزل ’گلوں میں رنگ بھرے‘ ہر گلی کوچے میں گونجنے لگی۔
ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں مہدی حسن پاکستان کے معروف ترین فلمی گائیک بن گئے۔ سنتوش کمار، درپن، وحید مراد اور محمد علی سے لے کر ندیم اور شاہد تک ہر ہیرو نے مہدی حسن کے گائے ہوئے گیتوں پر لب ہلائے۔ سنجیدہ حلقوں میں اُن کی حیثیت ایک غزل گائیک کے طور پر مستحکم رہی۔ اسی حیثیت میں انہوں نے برِصغیر کے ملکوں کا کئی بار دورہ بھی کیا۔
مہدی حسن 13 جون 2012 کو طویل علالت کے بعد کراچی میں انتقال کر گئے تھے۔ موسیقی کے شائقین گوگل ڈوڈل کی جانب سے مہدی حسن کو خراج تحسین پیش کیے جانے کے عمل کو سراہا رہے ہیں۔ ٹی وی اینکر آفتاب اقبال نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر لکھا،’’ اب کے ہم بچھڑے تو شایدکبھی خوابوں میں ملیں، جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں، ڈھونڈ اجڑے ہوئے لوگوں میں وفا کے موتی، یہ خزانے تجھے ممکن ہے خرابوں میں ملیں۔‘‘
ریڈیو پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق مہدی حسن نے تین سو سے زائد فلموں کے پانچ ہزار سے زائد گیت گائے۔ مہدی حسن کے چند یادگار گیتوں میں ’ مجھے تم نظر سے گرا تو رہے ہو‘، ’ ایک نئے موڑ پر لے آئے ہیں حالات مجھے‘ اور ’پیار بھرے دو شرمیلے نین‘ بھی شامل ہیں۔