آسٹریا میں ’یورپی قوم پرستوں‘ کی حکومت قائم ہو گئی
18 دسمبر 2017آسٹریا میں قدامت پسند پیپلز پارٹی اور انتہائی دائیں بازو کی عوامیت پسند سیاسی جماعت فریڈم پارٹی کے مابین مخلوط حکومت قائم کرنے کا معاہدہ جمعہ پندرہ دسمبر کو طے پایا تھا۔ اس ڈیل کے بعد حکومتی تشکیل اور وزراء کی تفصیل ملکی صدر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلین کو پیش کی گئی تھیں۔ آسٹرین صدر نے دو روز قبل واضح کر دیا تھا کہ نئی حکومت پیر کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالے گی۔ اسی اعلان کے مطابق آج پیر اٹھارہ دسمبر کو سیباستان کرس اپنے ملک کے چانسلر یا وزیراعظم بن گئے ہیں۔
آسٹرین نئے نازی سے وفاقی نائب چانسلر تک
آسٹریا: سباستیان کُرس نے کامیابی کا اعلان کر دیا
دنیا کے کم عمر ترین حکمران اب آسٹریا کے سباستیان کُرس ہوں گے
آسٹریا میں ’برقعہ بین‘ اور اسلام مخالف جماعتوں کی ممکنہ جیت
اُن کے نائب چانسلر فریڈم پارٹی کے ہائنز کرسٹیان اشٹزاخے ہیں۔ اشٹراخے مہاجرین کے ساتھ ساتھ اسلام مخالف بھی تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ یورپ میں اسلام کی کوئی جگہ نہیں۔ دائیں بازو کے اِس سیاستدان نے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کو یورپ کے لیے انتہائی خطرناک قرار دے رکھا ہے۔
مغربی یورپ میں آسٹریا واحد ملک بن گیا ہے، جس کی مخلوط حکومت میں ایک انتہائی دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعت شامل ہے۔ اٹھارہ برس قبل بھی فریڈم پارٹی ایک مخلوط حکومت کا حصہ بنی تھی۔ اُس وقت اُسے شدید مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا تھا اور تب اُس کے وزراء ایک سرنگ کے راستے حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے تھے۔ آج بھی اس مخلوط حکومت کے قیام کے موقع پر ویانا میں احتجاج کیا گیا لیکن اتنا شدید نہیں جتنا سن 2000 میں دیکھا گیا تھا۔
مخلوط حکومت کی حلف برداری کی تقریب کے وقت ویانا شہر میں ہونے والے مظاہرے کے شرکاء خاص طور پر مہاجرین مخالف اور دائیں بازو کی سیاسی جماعت فریڈم پارٹی کے خلاف نعرے بازی کر رہے تھے۔ دو ہزار سے زائد مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے اُس وقت دھواں چھوڑنے والے گرینیڈ بھی استعمال کیے، جب انہوں نے قائم کردہ رکاوٹوں کو عبور کر لیا تھا۔
اس مظاہرے کو کنٹرول کرنے کے لیے پولیس کے اضافی دستے تعینات کیے گئے تھے۔ منتظمین نے اس مظاہرے میں پانچ ہزار افراد کے شریک ہونے کی توقع ظاہر کی تھی لیکن پولیس نے مظاہرین کی تعداد اندازوں سے کم بتائی ہے۔