آذربائیجان میں علییف کامیاب، دھاندلی ہوئی: یورپی مبصرین
11 اکتوبر 2013آذربائیجان کے مرکزی الیکشن کمیشن نےجمعرات کے روز اعلان کیا تھا کہ صدر الہام علییف نے ڈالے گئے ووٹوں میں سے 84.6 فیصد ووٹ حاصل کر کے تیسری مدت کے لیے کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مدِ مقابل اور قریب ترین حریف جمیل حسن علی محض 5.5 فیصد ووٹ ہی حاصل کر پائے۔
آذر بائیجان کی اپوزیشن نے انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔ الیکشن میں شکست سے دوچار ہونے والے 61 سالہ تاریخ دان جمیل حسن علی کا کہنا ہے کہ انتخابات میں کھلی دھاندلی کرتے ہوئے بیلٹ بکسوں کو قبل از وقت ہی جعلی ووٹوں سے بھر دیا گیا تھا۔ جمیل حسن علی نے انتخابی نتائج کے خلاف ہفتہ 12 اکتوبر کو مظاہرے کا اعلان بھی کیا ہے۔
اپنی کامیابی کے اعلان کے بعد علییف نے ان انتخابات کو ’جمہوریت کی فتح‘ قرار دیا۔ ٹیلی وژن پر نشر کیے جانے والے اپنے خطاب میں ان کا مزید کہنا تھا، ’’حقیقت یہ ہے کہ یہ آزادانہ اور شفاف انتخابات تھے اور یہ جمہوریت کی جانب ایک اور اہم قدم ہیں۔‘‘
تاہم امریکا کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ اس بات پر ’ڈسٹرب‘ ہے کہ انتخابات بین الاقوامی معیارات پر پورے نہیں اتر پائے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی نائب ترجمان ماری ہارف کے مطابق، ’’ہم نے آذربائیجان کی حکومت کو مسلسل کہا کہ وہ انتخابی عمل کے آزادانہ اور شفاف ہونے کو یقینی بنائے۔ ہمیں افسوس ہے کہ یہ انتخابات بین الاقوامی معیارات پر پورے نہیں اترے۔‘‘
’آرگنائزیشن فار سکیورٹی اینڈ کوآپریشن اِن یورپ‘ OSCE کے مبصرین بھی اس بات پر متفق ہیں کہ یہ انتخابی عمل ’سنجیدہ نوعیت کے نقائص‘ کا حامل تھا اور اس بات کا اظہار تھا کہ آذربائیجان جمہوریت کے فروغ کے لیے اپنی ذمہ داری نبھانے سے کس قدر دور رہا۔
مبصر مشن کی سربراہ Tana de Zulueta کا ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انتخابی امیدواروں کو برابری کے مواقع نہیں ملے۔ اس کے علاوہ جتنے پولنگ اسٹیشنوں کا مشاہدہ کیا گیا، ان میں سے 58 فیصد کو انتخابی شفافیت کے حوالے سے برے یا انتہائی برے قرار دیا جا سکتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ’’آذربائیجان کے لوگ اس سے کہیں بہتر کے مستحق ہیں۔‘‘