1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

آئندہ 20 برس میں جرمنی میں ہر تیسرا شخص تارک وطن ہو گا

5 نومبر 2019

ماہرین کے مطابق آئندہ 20 برسوں تک جرمنی کے بڑے شہروں میں آباد 70 فیصد لوگ تارکین وطن کا پس منظر رکھنے والے افراد ہوں گے اور جرمن معیشت کے استحکام کے لیے مختلف قومیتوں کے لوگوں کی ضرورت ہے۔

https://p.dw.com/p/3SUEH
Fußgänger in Berlin
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Steinberg

مہاجرت سے متعلق ایک جرمن ماہر کا کہنا ہے کہ سال 2040ء تک جرمنی کی آبادی میں 35 فیصد شرح ایسے افراد کی ہو گی جو تارکین وطن کا پس منظر رکھتے ہوں گے۔

جرمنی کے روزگار سے متعلق تحقیق کے وفاقی ادارے (IAB) میں مائیگریشن ریسرچ ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ہیربرٹ بروئکر نے جرمن اخبار 'ویلٹ‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جرمنی ''زیادہ متنوع ہو جائے گا۔‘‘

بروئکر کے مطابق، ''اس وقت تارکین وطن پس منظر رکھنے والے جرمن شہریوں کی تعداد ایک چوتھائی ہے۔ جبکہ آئندہ 20 برس کے دوران یہ تعداد کم سے کم 35 فیصد تک پہنچ جائے گی جبکہ یہ 40 فیصد سے بھی بڑھ سکتی ہے۔‘‘

ہیربرٹ بروئکر کے مطابق بڑے شہروں میں تارکین وطن پس منظر کے حامل شہریوں کی تعداد نسبتاﹰ زیادہ ہو گی: ''جو کچھ اب ہمیں بڑے شہروں میں نظر آتا ہے وہ مجموعی طور پر پورے ملک میں معمول کی بات ہو گی تاہم فرینکفرٹ جیسے بڑے شہروں میں یہ تعداد 65 سے 70 فیصد تک پہنچ جائے گی۔‘‘

مزید تارکین وطن کی ضرورت

جرمن معیشت دان کا کہنا ہے کہ جرمن معیشت کے استحکام کے لیے مختلف قومیتوں کی حامل آبادی انتہائی اہم ہو گی۔ IAB کے اعداد وشمار سے اندازہ ہوتا ہے کہ جرمنی کو 2060ء تک ہرسال چار لاکھ تارکین وطن کی ضرورت ہے تاکہ اس کی معیشت سست روی کا شکار نہ ہو۔

Infografik Migration Deutschland 2018 EN

چیلنج تاہم یہ ہے کہ جرمنی ایسے لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرے جو اپنے شعبوں میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں۔ بروئکر کے بقول جرمنی کو دیگر ممالک کی لیبر کی طرف بھی توجہ دینی پڑی گی کیونکہ جنوبی اور مشرقی یورپی ممالک سے آنے والے کارکنوں کی تعداد اب ناکافی ہو گی۔

گزشتہ ماہ شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق تارکین وطن کے ایسے بچے جو اپنی زندگی کے ابتدائی حصے میں ہی جرمن پاسپورٹ حاصل کرتے ہیں ان کے اعلیٰ تعلیم کی جانب بڑھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔

ا ب ا / ک م (ڈی پی اے، کے این اے)