ISIS پورے خطے کے ليے خطرہ ہے، امريکا
27 جون 2014امريکی محکمہ خارجہ کے ايک سينئر اہلکار نے بتايا کہ جان کيری نے اکثريتی طور پر سنی آبادی والے ملکوں سعودی عرب، متحدو عرب امارات اور اردن کے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ گزشتہ روز ہونے والی بات چيت کے دوران يہ واضح کيا کہ سنی شدت پسند تنظيم اسلامی رياست برائے عراق و شام محض عراق ہی کے ليے نہيں بلکہ پورے خطے کے ليے ايک خطرہ ہے۔
فرانسيسی دارالحکومت پيرس ميں منعقد ہونے والے اس ہنگامی اجلاس ميں امريکی وزير خارجہ نے خليجی ممالک کے وزرائے خارجہ کو اپنے دورہ عراق کے بارے ميں بھی بتايا، جہاں وہ ايک دو روز قبل ہی گئے تھے۔ جان کيری نے وہاں منقسم عراقی رہنماؤں کو متحد کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ اس ملک کو شدت پسندی سے بچايا جا سکے۔
يہ امر اہم ہے کہ عراق ميں سنی شدت پسندوں کی تنظيم اسلامی رياست برائے عراق اور شام کے جنگجوؤں نے بغداد حکومت کے خلاف بڑا معرکہ شروع کر رکھا ہے اور متعدد شہروں پر بھی قبضہ کر ليا ہے۔ اس تنظيم نے اسی ہفتے عراق اور اردن کی درميانی سرحد پر قائم مرکزی بارڈر کراسنگ پر بھی اپنا قبضہ جما ليا ہے۔
سعودی عرب عراقی بحران کی ذمہ داری وزير اعظم نوری المالکی پر عائد کرتا ہے۔ رياض حکومت کا موقف ہے کہ المالکی نے عراق کی سنی عرب آبادی کو نظر انداز کيا اور اسی سبب يہ بحرانی صورت حال پيدا ہوئی۔
گزشتہ روز منعقدہ اجلاس پيرس ميں امريکی سفير کی رہائش گاہ پر ہوا۔ ايک موقع پر کيری نے بغداد ميں تعينات امريکی اہلکاروں سے بذريعہ ٹيلی فون رابطہ کرتے ہوئے تازہ ترين صورت حال بھی جانی۔ عراق ميں شدت پسندوں کے خلاف ممکنہ امريکی فضائی حملوں کے بارے ميں پوچھے گئے ايک سوال کے جواب ميں امريکی وزير خارجہ کا کہنا تھا کہ ’امريکا ممکنہ اہداف کے تعين کا کام جاری رکھے ہوئے ہے تاہم تاحال فوجی کارروائی کے حوالے سے کوئی حتمی فيصلہ نہيں کيا گيا ہے۔‘
امريکی وزير کے بقول اجلاس کے شرکاء نے عراق کی موجودہ حکومت ميں تمام مذہبی فرقوں کی نمائندگی نہ ہونے پر تشويش کا اظہار کيا اور اس بات پر بھی اتفاق کيا کہ مستقبل ميں اس صورت حال کو تبديل کرنے کی ضرورت ہے۔
جان کيری آج بہ روز جمعہ سعودی عرب پہنچ رہے ہيں، جہاں وہ شاہ عبداللہ کے ساتھ مشرق وسطی کے حاليہ بحران پر تبادلہ خيال کريں گے۔ قبل ازيں جمعرات ہی کے روز شاہ عبداللہ نےعراق ميں سرگرم جہاديوں سے اپنے ملک کو بچانے کے ليے ’لازمی اقدامات‘ کرنے کے ليے کہہ ديا تھا۔ تاحال يہ واضح نہيں کہ رياض حکومت نے ملک کے دفاع کے ليے کيا اقدامات کيے ہيں۔ ان اقدامات کا فيصلہ شاہ عبداللہ ہی کی قيادت ميں ہونے والے سکيورٹی کابينہ کے ايک اجلاس کے بعد کيے گئے۔