یوکرائن خانہ جنگی کے دہانے پر آ گیا ہے، پوٹن کا میرکل کو انتباہ
16 اپریل 2014کریملن کی طرف سے بدھ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ روسی صدر پوٹن نے جرمن چانسلر کے ساتھ ٹیلی فونک گفتگو میں یوکرائن میں بڑھتے ہوئے تناؤ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں مظاہرین کے خلاف فوجی کارروائی ’ایک غیر آئینی اقدام‘ ہو گا۔ پوٹن کے بقول مظاہرین کے خلاف طاقت کا استعمال ناقابل قبول ہو گا۔
کریملن کے مطابق البتہ دونوں رہنماؤں نے اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے جمعرات سے شروع ہونے والے مذاکرات کو اہم قرار دیا ہے۔ ان مذاکرات میں یورپی یونین، روس، امریکا اور یوکرائن کے نمائندے پہلی مرتبہ براہ راست ملیں گے تاکہ یوکرائن کے بحران کا پر امن حل تلاش کرنے کی کوشش کی جا سکے۔ تاہم روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا ہے کہ اگر کییف حکومت روس نواز علحیدگی پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کرتی ہے تو یہ مذاکرات متاثر ہو سکتے ہیں۔
قبل ازیں یوکرائن نے مشرقی علاقوں میں روس نواز علحیدگی پسندوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کارروائی کے تحت سلاویانسک میں ٹینک تعینات کر دیے۔ امریکی حمایت یافتہ کییف حکومت کے اس عمل کی ماسکو نے شدید مذمت کی ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی نے کییف سے موصولہ رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ روس سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں بیس ٹینک اور بکتربند گاڑیاں روانہ کرنے کا مقصد وہاں سرکاری عمارتوں پر قابض روس نواز جنگجوؤں سے نمٹنا ہے۔
یوکرائن کے مشرقی علاقوں کے دس شہروں میں یہ جنگجو حکومتی رٹ کو چیلنج کیے ہوئے ہیں۔ یوکرائنی فوج نے سلاویانسک کی طرف جانے والی شاہراہوں پر چیک پوائنٹ قائم کر دیے ہیں اور اس شہر کا رخ کرنے والوں کی تلاشی لی جا رہی ہے۔ اسی اثناء جنگی ہیلی کاپٹرز اور لڑاکا طیارے بھی اس شہر کے اوپر پرواز کر رہے ہیں۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ اس شہر کے باسی ایک لحاظ سے ان جنگجوؤں کے ہاتھوں یرغمالی بنے ہوئے ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ کییف حکومت نے روس نواز اس ملیشیا کو ہتھیار پھینکنے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ اگر صورتحال معمول پر نہیں آتی تو ایسے عناصر سے نمٹنے کے لیے انسداد دہشت گردی کے لیے ایک خصوصی آپریشن شروع کیا جائے گا۔ مشرقی علاقوں میں فوج کی تعیناتی اس آپریشن کی تیاری کا حصہ ہے۔
سلاویانسک میں اچانک ٹینکوں کی تعیناتی پر تبصرہ کرتے ہوئے یوکرائنی سکیورٹی سروس (ایس بی یو) کے سربراہ جنرل واسل کروٹوف نے خبردار کیا ہے، ’’ انہیں (روس نواز جنگجوؤں) کو خبردار کرنا ضروری ہے کہ اگر وہ ہتھیار نہیں پھیکنتے تو انہیں تباہ کر دیا جائے گا۔‘‘ انہوں نے اصرار کیا کہ وہاں فعال جنگجوؤں کو روس کی طرف سے ہدایات دی جا رہی ہیں۔
دوسری طرف ماسکو حکومت نے یوکرائن کی طرف سے اپنے ہی ملک کے شہریوں کے خلاف ایسی عسکری طاقت کے ممکنہ استعمال کی شدید مذمت کی ہے۔ تاہم امریکا نے کہا ہے کہ یوکرائن کے موجودہ حالات کے تناظر میں سلامتی کے خدشات دور کرنے کے لیے کییف نے درست حکمت عملی ترتیب دی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں لا اینڈ آرڈر کو درپیش خطرات کے تناظر میں روس نواز جنگجوؤں کے خلاف عسکری کارروائی درست ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جے کارنی نے مزید کہا کہ یوکرائن میں بدامنی کے لیے روسی کردار کے باعث امریکا ماسکو پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہا ہے۔ تاہم انہوں نے ایسی خبروں کو مسترد کیا کہ صدر باراک اوباما کی انتظامیہ یوکرائن کو عسکری مدد فراہم کرنے پر غور کر رہی ہے۔ خیال رہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن ایسے الزامات مسترد کرتے ہیں کہ روس یوکرائن میں بد امنی میں کوئی کردار ادا کر رہا ہے۔
ادھر روسی وزیر اعظم دمتری میدیدیف نے بھی خبردار کیا ہے کہ سابقہ سوویت جمہوریہ خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے کییف کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس بحران کے خاتمے کے لیے عسکری طاقت کے بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کرے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے اس صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے فریقین پر زور دیا ہے کہ اس تنازعے کا پرامن حل تلاش کرنے کی طرف توجہ مرکوز کی جائے۔